• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابتدائے آفرینش سے جس طرح مذہب انسان کی ضرورت ہے اور کمزوری بھی اسی طرح سماج میں اپنا آپ منوانے یا اپنی دھاک جمانے کے لئے حصولِ اقتدار یا حکمرانی بھی بہت سے انسانوں کی خواہش کے ساتھ ساتھ کمزوری بھی رہی ہے۔ عامتہ الناس بالخصوص سوسائٹی کے کمزور طبقات جس طرح مذہب کو جائے پناہ سمجھتے ہیں اسی طرح جاہ پسند اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے مذہب کا سیاسی استعمال کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ تاریخ کے ہر دور میں ہمیں بکثرت ملتا ہے۔ آج کے سائنٹیفک دور میں جب کائنات کی بہت سی حقیقتیں انسانوں پر کھلتی چلی جا رہی ہیں، شعوری بیداری نے ہی انسانوں کو یہ آگہی بخشتی ہے کہ مذہب کا سیاسی استعمال ہر گز نہیں ہونا چاہئے یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ مہذب اقوام میں مذہب کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال از خود ایک جرم قرار پایا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں تصویر کا دوسرا رخ نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ تمام تر شعوری بیداری کے باوجود دنیا میں ایسی اقوام کی تعداد اب بھی کم نہیں ہے جہاں موقع پرست طبقات مذہب کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے حصولِ اقتدار کے ساتھ ساتھ دوامِ حکمرانی کے لئے اس کا استعمال کرتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بی جے پی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے مذہب کا جس طرح سیاسی استعمال کر رہی ہے وہ اس منفی طرزِ عمل کی ایک واضح مثال ہے حالانکہ بھارتی آئین اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آئین ہمارا بھی یہی کہتا ہے کہ شہریوں میں مذہبی ،نسلی یا جنسی بنیادوں پر کسی نوع کا امتیاز روا نہیں رکھاجائے گا۔ اس اصولی فیصلے کے بعد ہماری پارلیمنٹ اور سپریم جوڈیشری کی ذمہ داری ہے کہ تینوں حوالوں سے اگر کہیں کسی نوع کا امتیازی رویہ دکھائی دے یا چیلنج کیا جائے تو اُسے طے شدہ بنیادی انسانی و آئینی حق کی روشنی میں کالعدم قرار دے دیا جائے۔

کسی بھی انسانی سوسائٹی میں مسئلہ محض آئین و قانون میں طے کر دینے سے ختم نہیں ہو جاتا، ریاستی و حکومتی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ سوسائٹی کو ان مثبت بنیادوں پر مضبوطی سے استوار کرنے کے لئے دیگر اقدامات میں کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں۔ اگر کہیں کسی نوع کی اشتعال انگیزی یا خلاف ورزی ہوتی ہے تو ریاست مائی باپ بن کر بلا امتیاز اپنے تمام شہریوں اور ان کے حقوق کو ایک نظر سے دیکھے۔ حکومتی ذمہ داریوں پر فائز شخصیات کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے اقدامات بیانات یا تقاریر سے کہیں کسی مخصوص مذہبی فرقے، نسلی گروہ یا جنسی و صنفی طبقے سے امتیازی رویے یا سلوک کی بوُ تو نہیں آرہی ہے یا کسی کی دلآزاری تو نہیں ہو رہی۔ فرقے، گروہ یا طبقات تو رہے ایک طرف ریاست تو ایک ایک فرد کے شخصی حقوق کی محافظ و ضامن ہے اور یہ ضمانت آئینِ پاکستان نے اپنے ہر شہری کو دے رکھی ہے۔

مذہبی حوالے سے یہاں جو حقوق مسلمان اکثریت کے لئے ہیں وہی مساوی انسانی و شہری حقوق تمام تر مذہبی اقلیتی طبقات کے لئے بھی ہیں، چاہے وہ ہندو، سکھ، مسیحی ہو یا کوئی اور۔ ہماری سیاسی و حکومتی شخصیات اپنی تقاریر میں جس طرح اسلامی تعلیمات اور مسلمانی تاریخ کے حوالے دیتی ہیں اسی طرح انہیں چاہئے کہ دیگر مذاہب کی انسان نواز تعلیمات کے حوالے بھی پیش فرما دیا کریں تاکہ ہمارے کسی شہری کو یہ دکھ اعتراض یا احساس نہ ہو کہ وہ خدانخواستہ کمتر یا دوسرے درجے کا شہری ہے۔ ہمارے بابائے قوم نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ اعلان فرما دیا تھا کہ کسی کا کوئی بھی عقیدہ ہے ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ریاست کی نظر میں ہندو، مسلم، مسیحی سب برابر کے شہری ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں اپنی ایک تقریر میں جنگِ بدر اور احد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے ہم اُسے ان کا ذاتی نقطہ نظر بھی کہہ سکتے ہیں، جو لوگ ان کی اس تقریر سے معاذاللہ توہینِ صحابہ کا پہلو نکال رہے ہیں یا اسے جواز بنا کر اشتعال پھیلانا چاہتے ہیں انہیں اس سے باز رہنا چاہئے۔ تاریخ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا اپنا ایک تاریخی موقف، فہم یا نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے اسے جس طرح پڑھا یا سمجھا ہے، ظاہر ہے وہ اسے اُسی طرح بیان کریں گے۔ ہو سکتا ہے ہم لوگ وزیراعظم کے اظہارِ خیال کو درست طور پر سمجھ نہ پائے ہوں یا وہ اس طرح بیان نہ کرپائے ہوں جس طرح سے وہ بیان کرنا چاہتے تھے اس سے ازخود توہین یا بلاسفیمی جیسا نتیجہ نکالنے کی کوشش کرنا انتہائی جسارت ہو گی۔

اس تمام تر محبت کا پسِ منظر اپوزیشن جماعتوں کی حالیہ کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا وہ موقف بنا ہے جس میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ حکومت کو گرانے کے لئے وہ جس تحریک کی بات کر رہے ہیں اس کی بنیاد مذہب پر رکھی جائے۔ عوام مذہبی جذبات کی رو میں بہہ کر عمران خان صاحب کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور یوں ہم حکومت کو چلتا کریں گے۔ خدا بھلا کرے محترمہ بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو کا جنہوں نے عین موقع پر مولانا سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم مذہب کا سیاسی استعمال کریں گے نہ ہونے دیں گے۔ ایسی کسی متنازع بات کو جواز بناکر اشتعال انگیز تحریک اٹھانا ناقابلِ قبول ہے۔ اسی طرح اس اجلاس میں مولانا نے سیاسی حوالے سے جو دوسرا سخت ترین موقف پیش کیا وہ یہ تھا کہ اپوزیشن تمام منتخب اداروں سے مستعفی ہوتے ہوئے حکومت کو بے دست و پاکر سکتی ہے جس کا نتیجہ اگر مارشل لاء لگنے تک جائے گا تو موجودہ ڈھکے چھپے یا پوشیدہ مارشل لاء سے عیاں مارشل لاء بہتر ہوگا، ہم سب کھل کر اس کے خلاف کھڑے ہو سکیں گے۔ بلاول بھٹو نے اس پر بھی واضح کر دیا کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں وہ جیسے تیسے منتخب ہوئی ہے اس کے خاتمے کا مطلب تو جمہوریت کی نفی ہوگی ہم اسے قبول نہیں کر سکتے میری ماں نے مجھے یہی سبق سکھایا ہے۔ مذہب کے سیاسی استعمال کے خلاف اور پارلیمنٹ کے حق میں اتنا زبردست موقف اختیار کرنے پر درویش بلاول بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ دیگر مذہبی وسیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو بھی چاہئے کہ وہ مذہب کے سیاسی استعمال پر اٹھنے والے مضمرات اور تباہ کاریوں کا ادراک کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین