وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورئہ برسلز کے دوران تمام سوالات کا جواب انتہائی بردباری اور تحمل سے دیا۔ ان کے اس طرز عمل کو یہاں تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔
دو روزہ دورے کے آخری روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے آگاہ کیا کہ ان سے پاکستان میں انسانی حقوق، صحافتی آزادیوں میں رکاوٹ اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں صورتحال کے بارے میں بھی سوالات کئے گئے تھے، جس کا انہوں نے تسلی بخش جواب دیا۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ یہاں ان سے پی ٹی ایم کے بارے میں بھی سوال کیا گیا تھا، جس کے جواب میں وزیر خارجہ نے بتایا کہ قوم نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کے وہ علاقے جنہیں’ علاقہ غیر‘ کہا جاتا تھا کو پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں اس کے نام نہاد حقوق کے علمبردار داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ ان علاقوں کو پاکستان کی مسلح افواج نے بڑی قربانیوں اور محنت کے بعد آزاد کروایا ہے۔ ایسی جگہ پر امن وامان خراب کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب معاشی مشکلات کے باوجود ان علاقوں کی ترقی کیلئے 150 ارب روپے سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے مزید بتایا کہ ایک اور سوال ریاست کی جانب سے پی ٹی ایم لیڈر شپ کی آواز دبانے کی کوشش کے بارے میں بھی آیا۔ میں نے جواب میں کہا کہ یہ ممبران بذات خود پاکستان کے سب سے بڑے نمائندہ ادارے پالیمنٹ کے اراکین ہیں۔ آئینی ترامیم سے لیکر اپوزیشن کی سیاسی بیٹھکوں کا حصہ ہیں۔ اپنے خیالات کے اظہار کا سب سے بڑا پلیٹ فارم انہیں میسر ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں ضم شدہ علاقوں میں الیکشن ہونے جارہے ہیں، جہاں سے 16 نئے ممبران صوبائی اسمبلی کا حصہ بنیں گے۔ یہ عمل آواز پہنچائے گا یا اس سے آواز دبائی جارہی ہے۔
پریس کے حوالے سے اٹھائے گئے سوال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میڈیا آزاد ہے۔ ہماری عدالتیں آزاد ہیں۔ اسی طرح سول سوسائٹی اور این جی اوز بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ صرف ملکی قوانین کے احترام کا خیال رکھنا ہر ایک کا فرض ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کی پارٹی تحریک انصاف معاشرے میں انصاف اور برابری کی علمبردار ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی پارٹی کے اقلیتی ممبران اس کی واضح مثال ہیں۔
اسی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستانی سفارت خانے میں کمیونٹی سے خطاب کے بعد سوالات کا جواب دینے میں بھی تحمل کا مظاہرہ کیا، جہاں مسیحی لیڈر لطیف بھٹی نے ان سے پاکستان میں زبردستی مذہب تبدیل کروانے سے متعلق شکایت کی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ویسے تو ایسی شکایات نہیں ہیں لیکن اگر کوئی ایسی کوشش کرتا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
مسلم لیگی رہنما شیخ الیاس نے بھی وزیر خارجہ سے پی ٹی آئی حکومت کے 10 ماہ کے دوران لئے گئے قرضوں کے متعلق سوال کیا۔
کونسلر ناصر چوہدری کے جذباتی انداز سے کئے گئے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے انہیں یقین دلایا کہ اگر وہ ممبران یورپین پارلیمنٹ کے ساتھ آتے ہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔
اسی میٹنگ میں انہوں نے چیئرمین کشمیر کونسل علی رضا سید، پختون ایسوسی ایشن کے صدر ریاض خان، کونسلر محمد عامر نعیم، نینا خان اور کشور مصطفیٰ کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔
اس موقع پر کشمیری رہنما سردار صدیق، تحریک انصاف کے شکیل گوہر، روبینہ خان، علی چوہدری اور آصفہ خان نمایاں تھے۔