• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام دشمن بجٹ پاس نہ ہونے دینےکےدعوے ہواہوئے۔ جھوٹی تسلیوں سےمطمئن کرنے اور اپنا شیڈو بجٹ پیش نہ کرکے اپوزیشن کے عوام کو بڑا ریلیف دلوانے کے وعدے گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئے اور بجٹ پاس ہوگیا۔ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور ارکان نے سارا زور سلیکٹ کی گردان پر رکھا، جس پر عمران خان نے سبھی کو آمریت کی نرسریوں کی پیداوار اور این آر او زدہ قرار دینے کا جوابی نشتر چلادیا۔ بیچارے عوام امید سےتھے کہ شاید ان پر گرنے والے مہنگائی کے بم کو کوئی روک دے گا لیکن شومئی قسمت ان کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہیں نہ حکومت نہ اپوزیشن!

بجٹ منظوری کےعمل میں آخری وقت تک ایوان میں ڈیوٹی کرنے والی اپوزیشن کے قائدین اگلے دن حیرت زدہ ہو کر پوچھتے رہے، کیا بجٹ پاس ہو گیا جو یقیناً عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ موجودہ حکومت کےدو ضمنی اور پہلا سالانہ بجٹ انتہائی خوفناک ہے، بنیادی کھانےپینےکی اشیاء سمیت بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں سینکڑوں فیصد اضافہ کردیاگیا ہے، نئے روزگار تو دور کی بات لاکھوں ملازمین فارغ ہوچکےہیں، ایک کروڑ گھروں سے پہلے سینکڑوں چھت سےمحروم ہوچکےہیں، روپیہ روز بےقدر اور قرضے روز بڑھ رہے ہیں لیکن یہ سب تو عوام کادردسر ہے امیر کبیر ارب پتی حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈرز کا اس سےکیالینادینا۔ ہاں عوامی غیظ و غضب کے سامنے خود کو خادم اور مسیحا ثابت کرنے کیلئے اپوزیشن نےاے پی سی کا ڈرامہ خوب رچایا جو سیاست گری کیلئےبری طرح سے کامیاب اور بھونچال میں آئے عوام کیلئے اچھی طرح فیل ہوا، وہ ایسے کہ حکمرانوں پر سلیکٹڈ ہونے اور نان الیکٹیڈ کو نواز کرحکومت چلانے کا الزام لگانے والی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں نے ایک بیروزگار نان الیکٹیڈ کو اپنا قائد تحریک سلیکٹ کیا پھر دونوں جماعتوں کی نئی پرانی قیادت مولانا کےدائیں بائیں بیٹھی اور پھرآئیں بائیں شائیں کرتے صدر محفل کو شرمندہ کرکےچلتے بنی، حکومت مخالف تحریک کااعلان ہوا نہ لانگ مارچ کافیصلہ بلکہ لاک ڈاؤن کی خواہش بھی دل میں ہی رہ گئی۔ اکثر نالاں اپوزیشن رہنما یہ بھی کہتے پائے گئے کہ مولانا خود تو ناکام ہوئے ساتھ ہی اپنے تجربے اور کمال ہوشیاری سے عوام کا سگےیار بننے کی دعویدار دونوں بڑی جماعتوں کوبھی ایکسپوز کر گئےاور نوازشریف کوباغی بننےکی ترغیب دینے والے محمود اچکزئی غائب ہوکر جان بچاگئے، تبھی تو بھٹو کے نواسے نےوالد کی جان شکنجے میں آنےکےدرد کو جمہوریت کا بیانیہ بناکرصاف کہہ دیاکہ وہ حکومت گرانے کی کسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اب اپوزیشن نےچیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی چال چلنے کی ٹھانی ہے مگر سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ مشکلات میں گھرے زرداری صاحب کوئی مزید خطرہ مول لینا تو دور کی بات اپنی اور ہمشیرہ کی خیر مانگ رہے ہیں اور تاریک راتوں کی ملاقاتوں میں ڈیل کے کھلاڑی شہباز شریف کو کون نہیں جانتا، پس پردہ ڈیل سے خود منتخب کردہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی ہمت کرنے کے نشری بیانات کا عقدہ جلد کھلنے کو ہےاور صفر جمع صفر کانتیجہ صفر، جلد سامنے آنے کو ہے۔ ادھر ق لیگ کی طرح پی ٹی آئی کی عددی اکثریت پوری کرنے کےلیےعام انتخابات سے قبل شروع ہونے والا آپریشن پوری قوت سے دوبارہ شروع ہوچکا ہے تکمیل کی خاطر پنجاب اور قومی اسمبلی کےدرجنوں اپوزیشن ممبران حکومتی حمایتی بن کر قوم کی خدمت میں حصہ دار بننے جارہے ہیں، بعض پریشان لیڈرز اس کارروائی کو حکومت کے خلاف برسرپیکار بیٹی کےقومی اداروں پر براہ راست مسلسل لفظی حملوں کا قوی جواب قرار دے رہے ہیں۔ دونوں اپوزیشن جماعتوں کےسینئر رہنماؤں کاخیال ہے کہ پیٹریاٹس کا حال اور مستقبل محض اقتدار کی غلام گردشوں تک محدود رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔

سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیاجائےتو واضح ہےکہ حکومت کے سامنے اگر اپوزیشن زور آور اور سمجھدار نہیں تو خود حکمران بھی آئے روز اپنی غیرسیاسی حرکتوں اور خیالی منصوبوں سے عوام کے غم و غصے کو روز بڑھا رہے ہیں۔ اپوزیشن سے زیادہ حکمران خود ہی عوام کو اکسا رہے کہ اتنے برے حالات میں خاموش کیوں بیٹھےہیں یہی روش رہی تو لاچار قوم کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر ایساپھٹےگاکہ تمام سیاسی قوتیں اس پر قابو پانے میں ناکام ہوجائیں گی۔ ایسے میں ملکی حالات کو کنٹرول کرنے میں مسلسل ناکامی کابہانہ بناکر مڈٹرم انتخابات کامطالبہ دانشمندانہ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف وزیراعظم ایک مرتبہ پھر کابینہ میں بڑی تبدیلیوں سے موجودہ حالات پر قابو پانے کی ایک اور کوشش کر رہےہیں تاہم طاقتور حلقوں میں یہ چہ میگو ئیاں بھی ہیں کہ اگلے دو تین ماہ میں معاشی بحران شدت اختیار کرگیا تو مشرف دور کی طرح ایک مکمل، مضبوط اور طاقتور سیٹ اپ لایا جا سکتا ہےجس کوآئندہ دو سے تین سال کیلئے حالات کو بہتر بنانے کا ٹاسک دیا جائے گا مگر مڈٹرم انتخابات بعید از قیاس ہیں۔ قائد ایوان کی تبدیلی پر بھی غور ہوسکتا ہے کیونکہ پارٹی کے اندر مشکل اور غیر مقبول فیصلوں سے حکومتی ارکان دبائو کا شکار ہیں اور اپنے حلقوں میں عوامی ردعمل کا سامنا کرنےکو بھی تیار نہیں، خطے کے حالات اور اندرونی ناگفتہ بہ صورت حال میں کسی فوری تبدیلی کا امکان عبث ہے۔

تازہ ترین