ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہلدی یا اس میں موجود فعال جُز کرکومین کا استعمال ڈائیبٹیز اور پری ڈائیبیٹز کے مریضوں میں بلڈ پریشر کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے اینڈوکرائینالوجی، ڈائیبٹیز اینڈ میٹابالزم (Endocrinology, Diabetes & Metabolism) میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق کرکومین یا ہلدی کے سپلیمنٹس استعمال کرنے سے سِسٹولک بلڈ پریشر (اوپر والا نمبر) میں نمایاں کمی دیکھی گئی، خاص طور پر ان افراد میں جو پہلے ہی ہائی بلڈ پریشر، پری ڈائیبیٹز یا ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا تھے۔
ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا تعلق
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق سال 2022ء میں دنیا بھر میں 18 سال سے زائد عمر کے 14 فیصد افراد ذیابیطس کا شکار تھے۔
ذیابیطس خون کی نالیوں اور گردوں کو نقصان پہنچا کر ہائی بلڈ پریشر کا سبب بنتی ہے جس سے دل کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور دل کے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کا طریقۂ کار
یہ تحقیق پری ڈائببیٹز اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے 855 مریضوں پر کی گئی تھی۔
تحقیق کے دوران ہلدی یا کرکومین سپلیمنٹس کے بلڈ پریشر پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
محققین نے اس تازہ تحقیق کے نتائج میں اگست 2025ء تک شائع ہونے والی مطالعات کو بھی شامل کیا اور سِسٹولک اور ڈائیسٹولک بلڈ پریشر میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا۔
اہم نتائج
تحقیق میں سامنے آیا کہ ہلدی یا کرکومین کے استعمال سے سِسٹولک بلڈ پریشر میں اوسطاً 2.69 ملی میٹر مرکری کمی ہوئی، جن افراد کو پہلے سے ہائی بلڈ پریشر تھا ان میں یہ کمی 3.41 ملی میٹر مرکری تک دیکھی گئی۔
زیادہ فائدہ پری ڈائیبیٹز یا ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں اور موٹاپے کے شکار افراد میں دیکھا گیا جو ایک گرام سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر ہلدی یا کرکومین سپلیمنٹس کا استعمال کر رہے تھے۔
ان افراد کو بھی زیادہ فائدہ حاصل ہوا جو نینو کرکومین، ہلدی یا کرکومین کو کالی مرچ (پائپرین) کے ساتھ استعمال کر رہے تھے۔
محققین کے مطابق ڈایسٹولک بلڈ پریشر (نیچے والا نمبر) میں مجموعی طور پر واضح کمی نہیں دیکھی گئی تاہم ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں میں اس میں بھی کچھ کمی نوٹ کی گئی۔
کیا ہلدی کا استعمال محفوظ اور مؤثر ہے؟
تحقیق کے مطابق کسی بھی مطالعے میں سنگین سائیڈ ایفیکٹس رپورٹ نہیں ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلدی یا کرکومین سپلیمنٹس نسبتاً محفوظ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلدی بلڈ پریشر کم کرنے میں ایک معاون طریقہ ہو سکتی ہے لیکن اسے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر روایتی علاج کا متبادل نہیں بنایا جا جا سکتا۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ بہترین خوراک، شکل اور طویل مدتی اثرات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کےلیے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔