عکاسی: عرفان نجمی
ڈاکٹر ضیاء المظہری، معروف آئی اسپیشلسٹ ہیں اور ’’کالا موتیا ‘‘پر ان کی تحقیق قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ انہوں نے 1990ء میں علّامہ اقبال میڈیکل کالج،لاہور سے ایم بی بی ایس، 1998ء میں ایف سی پی ایس اور 2002ء میں رائل کالج آف سرجنز، ایڈن برگ (برطانیہ) اور رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز، گلاسگو سے ایف آر سی ایس کیا۔ ڈاکٹر صاحب امریکن اکیڈمی آف آپتھالومولوجی (American academy of ophthalmology)کے ممبر ہیں اور اس وقت واپڈا ٹیچنگ اسپتال، لاہور میں کنسلٹنٹ آئی سرجن اور سربراہ شعبۂ آپتھالومولوجی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو شعر و شاعری سے بھی شغف ہے اور ان کا ایک مجموعۂ کلام بھی’’چشم بینا‘‘کے نام سے شایع ہوچُکا ہے۔
کالاموتیا، جو طبّی اصطلاح میں گلوکوما(Glaucoma)کہلاتا ہے،ایک ایسا عارضہ ہے،جس میں پردۂ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نظر کم زور ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ بینائی بھی ضایع ہوسکتی ہے۔پاکستان میں نابینے پَن کی ایک بڑی وجہ یہی عارضہ قرار دیا گیا ہے۔ کالا موتیا کیوں ہوتا ہے، اس کی ابتدائی علامات کیا ہیں اور کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ ان ہی سوالات کےجواب جاننے کے لیے ہم نے گزشتہ دِنوں معروف ماہرِ امراضِ چشم ،ڈاکٹر ضیاء المظہری سے بات چیت کی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
س: ایک عام فرد کے سمجھنے کےلیے بتایئے کہ کالا موتیا درحقیقت ہے کیا اور مرض کے محرّکات پر بھی کچھ روشنی ڈالیے ؟
ج: کالا موتیا ،جسے عرفِ عام میں’’ کالا پانی‘‘ بھی کہتے ہیں، آنکھوں کے مُہلک امراض میں شمارہوتا ہے،کیوں کہ یہ دُنیا بَھرمیں بشمول پاکستان، ناقابلِ علاج اندھے پَن کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس عارضے میں آنکھ اور دماغ کو ملانے والی آپٹک نَرو(Optic Nerve)متاثر ہوجاتی ہے۔اصل میں آنکھ ایک کیمرے کی مانند ہے، جو صرف منظر قید کرسکتی ہے، دیکھ نہیں سکتی، جب کہ پردہ ٔبصارت جو کہ ایک ڈیجیٹل سینسر کی طرح ہے، اس پر کسی بھی منظر یا شے کا عکس بنتا ہے اور برقی اشارات میں تبدیل ہوکر آپٹک نَرو کے ذریعے دماغ کے سب سے پچھلے حصّے میں منتقل ہوجاتا ہے اور پھر وہاں تصویر اپنے پورے خدوخال سے ظاہر ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کالے موتیے میں آنکھ اور دماغ کے رابطے کا ذریعہ’’آپٹک نَرو‘‘ہی متاثر ہوجاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو جب کسی وجہ سے آنکھ کا قدرتی اندرونی دبائو بڑھ جائے، تو یہ آپٹک نَرو متاثر ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں کالا موتیا لاحق ہوجاتاہے۔
س:کالے موتیے کی اقسام اور علامات کیا ہیں؟
ج: کالے موتیے کی دو بنیادی اقسام ہیں، جن کی وضاحت سے قبل آنکھ کی ساخت سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہماری آنکھ کیمرے سے ملتی جُلتی ہے۔ سامنے کی جانب دو لینسز(عدسے)واقع ہیں اور پیچھے کی جانب جیسے کیمرے میں فلم یا سینسر ہوتا ہے، اسی طرح کا پردۂ بصارت یعنی ریٹینا(Retina) پایا جاتا ہے، جب کہ سامنے والا سب سے بڑا عدسہ قرنیہ(Cornia)کہلاتا ہے۔ نیز، درمیان میں بھی ایک قدرتی عدسہ موجود ہوتا ہے۔ قرنیہ اور قدرتی عدسے کے درمیان جو چیمبر یا خانہ ہوتا ہے، اُسے انٹیرئیر چیمبر(Anterior Chamber)کہا جاتا ہے۔ اس خانے کے اندر پیدا ہونے والا پانی قدرت کی طرف سےنہ صرف آنکھ کو غذائی مواد کی فراہمی کا ذمّے دارہے،بلکہ اس کے اندرونی دبائو کوبھی برقرار رکھتا ہے، تاکہ آنکھ بہترین شفّاف تصویر والے کیمرے کا کام کرسکے۔ قدرتی طور پر پانی کے رِسنے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے،اسے طبّی اصطلاح میں سامنے والے خانے کا پانی کہتے ہیں۔جب یہ پانی بنتا ہے، تو آنکھ ہی کے ذریعے نکلتا ہے۔ یہ ایک مربوط نظام ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جب سامنے والے خانے سے پانی گزرتا ہے، تو قرنیہ اور آئرس (iris) کے درمیان ایک زاویہ سا بن جاتا ہے اور اس زاویے سے گزر کر ہی قدرتی پانی آنکھ سےنکل پاتاہے۔ آنکھ کاپانی بننے اور اس کے اخراج کا توازن برقرار رہنے کی صُورت ہی میں آنکھ کا اندرونی دبائو بھی نارمل حالت میں رہتا ہے، لیکن جب یہ توازن بگڑ جائے یا اس کے اخراج میں کسی سبب رکاوٹ پیدا ہوجائے، تو کالے موتیے کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر یہ زاویہ اس قدر تنگ ہو جائے کہ پانی کا گزر اس سے ممکن نہ ہو، تو طبّی اصطلاح میں یہ قسم ’’تنگ زاویے والا کالا موتیا‘‘(Closed Angle Glaucoma)کہلاتی ہے۔ اگر یہ زاویہ کُھلا ہو، لیکن اس کے اندرپائے جانے والے چھوٹے چھوٹے مسام یا سوراخ سُکڑ جائیں یا پانی زائد مقدار میں بن رہا ہو، تو آنکھ کا اندرونی دبائو بڑھ جاتا ہے۔یہ دوسری قسم’’کھلے زاویے والا کالا موتیا‘‘ (Open Angle Glaucoma)کہلائے گی۔ مرض کی علامات ان ہی اقسام پر منحصر ہیں کہ اگر عُمر کے ساتھ تنگ زاویے والا کالا موتیا ظاہر ہو اور آنکھ کا اندرونی دباؤ اچانک بڑھ جائے، تب شدید درد، سُرخی، آنکھ سے زائد پانی بہنے اور خارش جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں،لیکن ضروری نہیں کہ یہ علامات کالے موتیے ہی کی ہوں۔ اگر تو کُھلے زاویے والا کالا موتیا ہو اور آنکھ کا دبائو بتدریج بڑھ رہا ہو، تو اس صُورت میں درد ہوتا ہے، نہ کوئی دوسری علامت ظاہر ہوتی ہے۔ نیز، احاطۂ نظر کی علامات بھی اُس وقت ظاہر ہوتی ہیں، جب نوّے فی صد بینائی ضایع ہوچُکی ہو۔
س: کالا موتیا عُمرکے کسی خاص حصّے میں فرد کو متاثر کرتا ہے یا … ؟
ج: یہ مرض عُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر موروثی کالے موتیے کے اثرات پیدایش کے ساتھ ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں، جب کہ عُمر کے ساتھ لاحق ہونے والا کالا موتیا زیادہ تر بڑھاپے میںہوتا ہے۔لیکن عُمرکا ایسا کوئی مخصوص حصّہ نہیں، جس میں کالا موتیا نہ ہوتا ہو، یہ کسی بھی عُمر میں بینائی متاثر کرسکتاہے۔
س: مرض کی تشخیص اور علاج سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟
ج: یاد رکھیے، کالا موتیا تب خطرناک ثابت ہوتا ہے، جب اس کی تشخیص بروقت نہ ہو۔عام طور پر مریض کی اپنی سُستی یا معالج کی جلد بازی کے سبب مرض بروقت تشخیص نہیں ہوپاتا۔ دراصل معالج ایک مخصوص وقت میں کئی مریضوں کا معائنہ کررہا ہوتا ہے، اس صُورت میں زیادہ تر آپٹک نَرو کا درست معائنہ نہیں ہوپاتا۔ اور جب تک مرض تشخیص ہوتا ہے، وہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچُکا ہوتا ہے، بلکہ بعض کیسز میں تو نوبت اندھے پَن تک آجاتی ہے۔ عام طور پر مرض کی نوعیت کے مطابق ادویہ، لیزر شعاؤں اور جراحی کے ذریعے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔موجودہ دَور میںکئی ادویہ قطروں کی صورت میںبھی دستیاب ہیں۔ماضی کی نسبت اب جدید آلات کی بدولت اس مرض کا علاج سہل ہے۔جیسے او سی ٹی(optical coherence tomography)کے ذریعے اندھا پَن پیدا ہونے سے دس یا بیس برس قبل تشخیص کیا جاسکتا ہے۔
س:اگر بینائی ایک بار ختم ہوجائے، توکیا دوبارہ بحال ہوسکتی ہے؟
ج: ہرگزنہیں۔ بینائی اگر ایک بار چلی جائے، تو پھر کسی صُورت بحال نہیں کی جاسکتی۔ البتہ بروقت تشخیص و علاج کی بدولت بینائی مکمل طور پر ضایع ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔ اور اس کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ مرض کس مرحلے میں تشخیص ہوا ، آنکھ کو کتنے فی صد نقصان پہنچ چُکا ہے، نظر کا احاطہ کس قدر سُکڑ گیا ہے، نیز گہرے سیاہ دھبّے کتنے بڑے ہوچُکے ہیں؟ یاد رکھیے، جس قدراحاطۂ نظر ضایع ہوچُکا ہو یا کالے دھبّے پڑچُکے ہوں، تو پھر اُس کا دوبارہ اصلی حالت میں آنا ممکن نہیں، البتہ علاج کے ذریعے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرکے بینائی کو مزید نقصان پہنچنے سے روکا جا سکتا ہے۔
س:کالاموتیا کیسے روکا جاسکتا ہے؟
ج: یہ صرف اور صرف بروقت تشخیص ہی سے ممکن ہے،جس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی آنکھوں کا تفصیلی معائنہ کروایا جائے، تو کالے موتیے کا ٹیسٹ بھی ضرور کروائیں۔ خاص طور پر جب عُمر چالیس سال سے زائد ہو جائے، تو خواہ کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو، آنکھ اور اس کا اندرونی دباؤ لازماً چیک کروایا جائے۔ اصل میں آپٹک نَرو کی کیفیت کا جاننا، جسے ہم سی ڈی ریشو(Credit deposit ratio)یا ڈسک ریشو کہتے ہیں، بےحد ضروری ہوتاہے اور جب بروقت تشخیص ہوجائے تو علاج کے ذریعے اسے مزید بڑھنے سے روکنا سہل ہوجاتا ہے۔
س:اس مرض میں موروثیت کا کس حد تک عمل دخل ہے؟
ج: بعض کیسز میں یہ موروثی ہوتاہے، لیکن اگر آپ یہ سمجھیں کہ کسی کو کُھلے یا تنگ زاویے والا کالا موتیا ہے، تو اُس کا بچّہ بھی جنم لیتے ہی اس مرض کا شکار ہوجائے گا، تو ایسا نہیں ہے۔ عام طور پرجب کوئی مریض ماہرِ امراضِ چشم سے رجوع کرتا ہے، تو اس سےلازماً پوچھا جاتا ہے کہ خاندان میں کالے موتیے کی شکایت تو نہیں یا آنکھوں کی کوئی دوا یا قطرے لمبے عرصے تک استعمال کیے ہیں۔
س:بچّوں میں کالے موتیے کے عارضے سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟
ج: بچّوں میں کالا موتیا بڑوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اگر پیدایشی طور پر کالا موتیا ہو، تو آنکھ سے زیادہ پانی بہنا،رنگت بدلنا اورتیزی سےآنکھ کاحجم بڑھنا اہم علامات ہیں،لہٰذا والدین بچّے کی آنکھ کا رنگ بدلتے دیکھیں، تو فوراً ماہرِ امراضِ چشم سے رجوع کریں۔
س:ماضی کی نسبت اب دو، تین سال کے بچّوں میں بھی نظر کم ہونے کی شکایت زیادہ بڑھ گئی ہے، تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ج: جی بالکل، بچّوں میں نظر کم زوری کی شرح بڑھ رہی ہے،کیوں کہ اکثر والدین دو، پانچ یا چھے سال کی عُمر کے بچّوں کو بہلانے یا کھانا کھلانے کے لیے ان کے ہاتھوں میں موبائل فونز تھما دیتے ہیں۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایسے بچّوں میں عینک لگنے کے پندرہ فی صد امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ بچّوں کو لیپ ٹاپ یا موبائل فون تھما کر کمرے تک محدود کردیا جاتا ہے،جو درست نہیں۔یاد رکھیے، جو بچّے کُھلے آسمان تلے اور سرسبز زمین پر دِن کا کچھ حصّہ گزارتے ہیں، ان کی نظر ٹھیک اور مجموعی کارکردگی کمرے میں بند رہنے والوں سے بہتر پائی جاتی ہے۔اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت نے انگریزی میں ایک مقولہ بھی متعارف کروایا ہے کہ "Make the kids play keep the glasses away"۔یعنی ’’بچّوں کو کھیلنے کودنے دیں اور عینک لگنے سے بچائیں۔‘‘
س:کالےموتیے سے بچاؤ اور دورانِ علاج کھانے پینے میںکس قسم کی احتیاط مفید ثابت ہوسکتی ہے؟
ج: کالے موتیے سے بچائو یا دورانِ علاج کھانے پینے میں خاص پرہیز یا احتیاط کی ضرورت نہیں ۔تاہم، عمومی طور پر اپنی صحت کا خیال رکھا جائے اور تمباکو نوشی سے پرہیز بہرحال ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کالے موتیے کی وجہ سے براہِ راست ذیابطیس یا بلڈپریشر کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا، لیکن ان عوارض کے ساتھ کالا موتیا بھی لاحق ہوتو بینائی کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔یہاں مَیں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگرآپ کسی اور عارضے میں مبتلا ہیں اور معالج نےطویل عرصے کے لیے کوئی دوا تجویزکی ہے جیسے جوڑوں کے درد کے لیے اسٹرائیڈز وغیرہ ،تو بعض کیسز میں یہ کالے اور سفید موتیے کی وجہ بن جاتے ہیں، جب کہ بعض عمومی ادویہ بھی کالے موتیا کا سبب بن سکتی ہیں،لہٰذا اگرآپ کوئی دوا استعمال کررہے ہیں، توآنکھوں کے معالج کواس سے ضرور آگاہ کریں۔ علاوہ ازیں، اگر کسی اور عارضےمیں مبتلاہیں تو بھی اپنےمعالج سے لازماً پوچھا جائے کہ جو دوا تجویز کی ہے، اس کے جسم یا آنکھوں پرکیا مضر اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں۔
س: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: کالے موتیے کو عربی میں سارق النظر یعنی ’’نظر کا چور‘‘ کہتے ہیں، جب کہ اسے’’نظر کا خاموش قاتل ‘‘بھی کہا جاتا ہے،کیوں کہ زیادہ تر کیسز میں جب بینائی مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے، تب ہی مرض تشخیص ہوتا ہے،لہٰذا میری مریض اور ماہرِ امراضِ چشم دونوں ہی سے درخواست ہے کہ آنکھوںیا پپوٹوںکی خواہ کوئی بھی تکلیف ہو، کالے موتیے کے لحاظ سے تفصیلی معائنہ ضرور کروایا اور کیا جائے۔ علاوہ ازیں، کالا موتیا ابتدا میں ایسی کوئی علامات ظاہر نہیں کرتا، جس سے مریض یا اس کے اہلِ خانہ مرض کی شدّت کا اندازہ کرسکیں۔اس مرحلے پرایک مستند معالج ہی تفصیلی معائنے کے ذریعے بروقت مرض تشخیص کرسکتاہے اور تب ہی مؤثرعلاج اور پیچیدگیوں سےبچائو ممکن ہے۔
ہر20منٹ بعد،20سیکنڈکے لیے اسکرین سے نظر ہٹائیں
ڈاکٹر ضیاء المظہری نے آنکھوں کی حفاظت سے متعلق بتایا ،’’ نامناسب طرزِزندگی کے باعث بچّوں اور بڑوں کی کثیر تعداد امراضِ چشم کا شکار ہورہی ہے۔ایک صحت مند فرد40سال کی عُمر کے بعدہر سال کسی مستند ماہرِ امراض چشم سے اپنی آنکھوں کا لازمی معائنہ کروائے۔اگر آنکھوں کے امراض کی فیملی ہسٹری ہو،تو پھر معائنہ اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ کم روشنی میں پڑھنے سے گریز کیا جائے، جب کہ سگریٹ نوشی سے پرہیز ضروری ہے۔ جہاں تک خوراک کا تعلق ہے، تو ہری سبزیاں، گاجر، پالک، بندگوبھی، مچھلی، سونف، نظر کی تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ انڈے، مونگ پھلی، پھلیاں، لیموں اور دوسرے ترش پھل بھی بہت مفید ہیں۔ سن گلاسز کا استعمال بھی فائدہ مند ہے کہ یہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جو افراد الیکٹرانک ڈیوائسز مثلاً کمپیوٹر،لیپ ٹاپ یا ٹیبلیٹس وغیرہ کا زائد استعمال کرتے ہیں، ہر 20منٹ بعد اپنی آنکھیں اسکرین سے ہٹائیں اور اپنے سامنے کم از کم 20فٹ دُور تک، سیکنڈ تک دیکھیں۔ اس سے آنکھوں کے پٹّھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔مانیٹر آنکھوں کی سطح کے مطابق رکھا جائے،جہاں سے بس ہلکی سی آنکھیں جُھکا کر کام کرنا پڑے۔ آرام دہ اور کمر کو سپورٹ کرنے والی کرسی کا انتخاب کریں اور ایسے بیٹھیں کہ کمر سیدھی اور پائوں زمین پر پھیلے ہوں۔ دورانِ کام آنکھیں خشک ہونے لگیں، تو بار بار جھپکائیں۔ ہر دو گھٹنے بعد اُٹھ کر چہل قدمی بھی کریں۔ علاوہ ازیں، عام روٹین میں بھی چہل قدمی اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں، یہ عمل کالے موتیے سے لے کر دیگر عام امراضِ چشم لاحق ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔‘‘