کچھ ماہ قبل لاہور کے میو اسپتال میں بچے کے علاج کے دوران ماں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی دردناک خبر نے دل دہلا دیا تھا۔ خواتین سے زیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، کرہ ارض پرصنف نازک کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر کونے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے جنسی ہراسگی کا نشانہ بن رہی ہے۔ ان میں اکثریت ورکنگ ویمن یعنی ایسی خواتین پرمشتمل ہے جو ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مقبول’’می ٹو تحریک‘‘ پاکستان میں وہ کامیابی حاصل نہ کرسکی جو دنیا کے دیگر ممالک میں حاصل کرپائی۔ ہمارے معاشرتی اقدار خواتین کو آج بھی اس مسئلے کے خلاف کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ہم اس پر کھل کر بات کرنا معیوب سمجھتے ہیں، جس کے سبب مرد خواتین کو ہراساں کرنا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔
ہم کامیابی کی جانب گامزن خواتین کے بڑھتے قدم نہیں روک سکتے اور نہ انھیں روکنا چاہتے ہیں، نہ ہی مردوں کی نگاہوں کو روکا جاسکتا ہے لیکن ہم موثر آگہی کے ذریعے خواتین کو جنسی ہراسگی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار تو کرسکتے ہیں۔ اس جنگ کے خلاف پہلا قدم ہر عورت نے خود اٹھانا ہے، اپنی آواز کو الزامات کے خوف سے ڈر کر دبا لینے کے بجائےخود میں اتنی ہمت اور جذبہ پیدا کرنا ہوگاکہ ہراساں کرنے والی نظروں کے خلاف مضبوط ہتھیار بن سکیں۔
ہمارے یہاں دراصل خواتین کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا آخر ہوتا کیا ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور اس کے سدباب سے متعلق ہم نے معروف اینکر و میزبان اور جیونیوز میں انسداد جنسی ہراسگی کمیٹی کی سربراہ عظمیٰ الکریم سے بات چیت کی، جو آپ کے لیے کافی حد تک مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
جنگ:جنسی ہرا سگی یا جنسی طورپر ہراساں کیا جانا کسے کہتے ہیں؟
عظمیٰ الکریم: جنسی ہراسگی کی اگر بنیادی تعریف کی بات کی جائے تو تمام خواتین کو دو لفظ ذہن میں رکھنے ضروری ہیں ‘unwanted’ اور‘unwelcomed’۔کوئی بھی ایسا عمل جو کسی کی خواہش یا پسند کے برخلاف ہو وہ ہراسگی میں شامل کیا جاتا ہے۔ کچھ عمل ایسے ہوتے ہیں جوکسی کے لیے ناپسندیدہ اور ان کی پسند کے برخلاف ہوتے ہیں جبکہ کسی دوسرے کے لیے اسی عمل کی صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر اگرکسی خاتون کو کسی مرد کا بے تکلف ہونا پسند نہیں، تاہم اس کے باوجود اس سے بے تکلفی برتی جائے تو یہ جنسی ہراسگی ہے۔ تاہم اگر کسی خاتون کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں تویہ ہراسگی میں شامل نہیں۔
جنگ:ہراسگی کی شدت یا نوعیت موضوعی(Subjective)ہے یا نہیں؟
عظمیٰ الکریم:بالکل موضوعی ہے کیونکہ بہت سے عمل ایسے ہیں، جو ہوسکتا ہے کہ میرے لیے ناپسندیدہ ہوں لیکن شاید کسی دوسرے کے لیے قابل قبول ہوں، جیساکہ مصافحہ کرنا۔ اگر کوئی مردمجھ سے مصافحہ کرے گا تومیں شاید اسے انکار کردوں یا پھر ہاتھ ملالوں تو یہ میرے لیے جنسی ہراسگی نہیں ۔لیکن اگر کوئی مر دکسی اور عورت سے ہاتھ ملانا چاہے اور یہ عمل اسے ناپسند ہو مگر پھر بھی اس عورت کو ہاتھ ملانے پر مجبور کیا جائے تو یہ اس کے لیے جنسی ہراسگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنسی ہراسگی کا عمل بالکل subjectiveہے اور اس کی شدت بھی کسی حد تک subjectiveہی ہے ۔
جنگ:گھر سے باہر نکلنے والی خواتین ہراسگی سے بچنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کریں؟
عظمیٰ الکریم:اکثر لوگ اس حوالے سے خواتین کی ڈریسنگ کو نشانہ بناتے ہیں لیکن میری رائے بالکل مختلف ہے۔ اگر آپ کو ہراساں کرنے والے لوگ معاشرے میں موجود ہیں تو وہ کسی بھی طرح آپ کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ لہٰذا ا س سے بچنا ممکن نہیں لیکن حفاظت کے طور پر چند اقدامات اُٹھائے جاسکتے ہیں جیسے کہ پولیس میں شکایت درج کروائی جاسکتی ہے اور اگر ہراساں کرنے والا کسی ادارے میں ملازم ہے تو اس ادارے میں شکایت درج کروانا زیادہ بہتر ہے۔
جنگ:بچے بچیوں میں جنسی ہراسگی سے متعلق تعلیم کس سطح سے شروع کی جانی چاہیے؟
عظمیٰ الکریم:میری رائے کے مطابق جنسی ہراسگی کی تعلیم دینے کا صحیح وقت بچوں کی اسکولنگ کا آغاز ہونے سے قبل ہوتا ہے، یعنی گھر میں ہی بچوں کو اس بارے میں بتانا شروع کردینا چاہیے۔ ویسے تو جنسی ہراسگی کی تعلیم کی کوئی عمر متعین نہیں، ہر سطح پر ہراسگی کی سطح مختلف ہوسکتی ہے۔ اسی لیے آپ کو یا بچے کو ہر سطح پر اس سے نمٹنا آنا چاہیے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب والدین خود جنسی ہراسگی سے متعلق آگہی رکھتے ہوں۔
جنگ:پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اگر سینئرز یا مالکان کی جانب سے ہراساں کیاجائے تو شکایات کہاں درج کروائی جائے؟
عظمیٰ الکریم:اگر دفتر میں آپ کو سینئرز یا مالکان کی جانب سے ہراساں کیا جارہاہو تو دفتر میں موجود Prevention of Harrasment کمیٹی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔لیکن اگر آپ کمیٹی یا اس کے فیصلے سے مطمئن نہیں تو آپ محتسب کے دفتر میں بھی شکایت درج کرواسکتی ہیں۔ اگر آپ وفاق میں ہیں تووفاقی محتسب دفتر میں شکایت درج کروائیں گی بصورت دیگر صوبائی محتسب کے دفتر میں۔ تاہم اگر آپ کے ادارے میں کوئی کمیٹی نہیں ہے تو آپ براہ راست بھی محتسب کے دفتر میں جاسکتی ہیں۔
جنگ:جنسی ہراسگی کے حوالے سے عورت کتنی قصوروار ہوتی ہے؟
عظمیٰ الکریم:ہراسگی کے حوالے سے ضروری یہ ہوتا ہے کہ ملزم کتنا قصور وار ہے کیونکہ ہراسگی کا معاملہ صرف عورت ہی نہیں بلکہ مردوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہاں ہم جنس پرستی میں ہراسگی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم خواتین کو ہراساں کرنے کی شرح زیادہ ہے، جس کے لیے وہ قصور وار نہیں ہوتیں کیونکہ اگر کسی گھر میں چوری ہوئی ہے تو اس میں گھر کا کیا قصور! یہی معاملہ خواتین کا بھی ہے۔ مغربی معاشرے کی بات کی جائے تو وہاں کا لباس ہراسگی کی وجہ بن سکتا ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں عورت کے پہناوے کو ہراسگی کی وجہ قرار دینا کسی طور درست نہیں۔