’’پاکستان پولیو پروگرام‘‘ کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے آٹھ سال بعد بھی یہ سوال میرے ذہن پر ہمیشہ سوار رہا کہ ملک میں ویکسی نیشنز کی لگاتار چلنے والی مہم کے باوجود قطرے پینے سے رہ جانے والے بچوں کی تعداد کم کیوں نہیں ہو پاتی؟
ہیلتھ کمیونی کیشن سے سیاسی ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھا۔ ایک قیادت، جسے میری صلاحیتوں پریقین تھا، کے ساتھ اس نئے اور وسیع تر منظر نامے پر، زیادہ آزادی کے ساتھ تصورات کی تخلیق میں گزرے پانچ برسوں نے دنیا کے بارے میں میرے تصورات کو تبدیل کردیا۔ آج میں یقین رکھتا ہوں اور یہی میرے لیڈر اور گرو، عمران خان نے مجھے سکھایا کہ کبھی کسی مسئلے کی تہہ تک جانے سے نہیں گھبرانا۔ اصل سوالات اٹھانا ہیں اور نتائج سے بے پروا ہوکر اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنا ہے۔
پندرہ اکتوبر 2018کو مجھے پولیو خاتمے کی مہم کا وزیراعظم کا فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ منصب سنبھالتے ہی میں نے سب سے پہلے وہ سوال اٹھایا، جس پر میں اسی پروگرام کا ایک افسر ہونے کے ناتے غور کرتا رہا تھا کہ قطرے پینے سے رہ جانے والے بچوں کی اصل تعد اد کتنی ہے؟ عوامی سطح پر پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ پولیو کیسز میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ پولیو کیسز میں اضافہ نظروں سے اوجھل اصل بیماری کی محض علامت ہے، جو کہ پولیو پروگرام سے محروم رہ جانے والے بچوں کی اصل تعداد جاننا ہے۔ اس تعداد کا دارومدار فیلڈ سے حاصل کردہ اعداد و شمار پر ہوتا ہے۔ جب میں نے عہدہ سنبھالا، پاکستان میں پولیو کے چھ کیسز سامنے آچکے تھے، جبکہ سیوریج کے پانی سے لئے گئے زیادہ تر نمونوں میں پولیو کے وائرس کی موجودگی پائی گئی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’پولیو وائرس کی اتنی زیادہ موجودگی کے باوجود پولیو کے کیسز اتنے کم کیوں ہیں؟‘‘ جواب یہ تھا کہ پیہم پولیو مہموں کی وجہ سے پاکستانی بچوں میں پیدا ہونے والی قوتِ مدافعت۔ یہی وجہ ہے ہم زیادہ کیسز نہیں دیکھتے۔ جن ممالک نے پولیو کو کامیابی سے ختم کیا، اُنہوں نے مہم کا دائرہ پچانوے فیصد آبادی تک پھیلایا تھا۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر چالیس ملین بچوں میں سے تین سے چار لاکھ بچے ایسے ہیں جو گھروں پر دستیاب نہ ہونے یا والدین کے انکار کی وجہ سے قطرے پینے سے رہ جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا مطلب ہے کہ پاکستان پولیو پروگرام ننانوے فیصد اہداف حاصل کرتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کئی سال پہلے ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ ہو جانا چاہئے تھا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کچھ پولیو مہموں کے اعداد و شمار 101فیصد کوریج کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہم 2017میں پاکستان سے پولیو کے خاتمے کے بہت قریب آگئے تھے جب پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی وائرس کی موجودگی معدوم پائی گئی۔ بدقسمتی سے 2017-18میں وائرس کو انتہائی کم پاکر ہم نے جشن منانا شروع کر دیا۔ سینئر قیادت نے اعلیٰ کارکردگی کے تمغے اپنے سینے پر سجا لئے اور اس سے ملنے والے فوائد کے متلاشی ہوئے۔ وہ ہمارے پروگرام کا فیصلہ کن موڑ تھا اور ہمیں پوری قوت کے ساتھ اسے حتمی کامیابی تک پہنچانا چاہئے تھا۔
دسمبر 2018میں باجوڑ کے ضلع میں اس بیماری نے بھرپور حملہ کیا۔ انکوائری سے خوفناک انکشاف ہوا کہ بچوں کو قطرے پلانے سے برملا انکار کے بجائے والدین نے اپنے بچوں کے ہاتھوں پر قطرے پلائے جانے کے جعلی نشانات لگا لئے تھے۔ اس کا مقصد مانیٹرنگ کرنے والوں کو گمراہ کرنا تھا۔ پولیو پروگرام سے آٹھ سال وابستہ رہنے کے باوجود میں ایسے جعلی نشانات کے بارے میں پہلی مرتبہ سن رہا تھا۔ اگرچہ بائیس اپریل 2019کو پشاور ڈرامے نے اس مہم کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اس سے ایک اہم حقیقت بے نقاب ہوئی کہ پولیو مہم پر ایک قومیت عدم اعتماد کرتی ہے۔ انگلیوں پر جعلی نشانات اس عدم اعتماد کی عکاسی کرتے ہیں۔ اپریل کے بعد جنوبی خیبر پختونخوا، بنوں اور شمالی وزیرستان میں 2014کے بعد پولیو کا بدترین پھیلائو دیکھنے میں آیا۔
قطرے پلانے سے انکار کرنے پر تھانے جانے سے بچنے کے لئے جعلی نشانات کا حربہ استعمال ہوتا دیکھ کر میرے یقین کو تقویت ملی کہ اگر ہم کسی دھڑے کو قائل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے گریز کرنا ہوگا۔ چنانچہ قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کے خلاف طاقت کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ مجھے اعداد و شمار نے چکرا دیا۔ پولیو کے قطرے نہ پینے والے بچوں کی تعداد بنوں میں ایک ہزار سے اٹھارہ ہزار تک، شمالی وزیرستان میں ایک ہزار سے آٹھ ہزار تک، اور لکی مروت میں ایک ہزار سے پندرہ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ان اضلاع میں اوسطاً آٹھ فیصد بچے قطرے نہیں پی رہے تھے۔ اس سے پہلے اعداد و شمار بتاتے تھے کہ ایسے بچے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ تو اصل تعداد نکلی آٹھ فیصد۔ اگر پولیو کے خاتمے کی عالمی تاریخ پر یقین کریں تو جو پھیلائو ہم دیکھ رہے تھے، وہ ایک فیصد بچوں کے رہ جانے سے نہیں ہوسکتا گویا ہم غلط اعداد و شمار حاصل کررہے تھے۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حاصل کردہ تمام اعداد و شمار گمراہ کن تھے۔
اس وقت دنیا ویکسی نیشن مخالف مہم کی گرفت میں ہے۔ پاکستان تو ایک طرف رہا، نیویارک جیسے جدید اور باخبر شہر بھی اس کی زد سے باہر نہیں۔ میں اب ایک پیش قدمی کی قیادت کررہا ہوں۔ پاکستان ویکسی نیشن مخالف مہم کا تدارک کرنے کے لئے عوامی آگاہی کی مہم چلائے گا۔ یہ مہم رواں سال نومبر میں شروع کی جائے گی۔ اس کے ذریعے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے طبقوں کا اعتماد حاصل کیا جائے گا۔ اس کی بابت معلومات اور افواہوں کی تصدیق یا تردید کے لئے چوبیس گھنٹے فعال ایک کال سنٹر قائم کیا جارہا ہے۔ اس کے لئے فیس بک کا مفید تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ کچھ اور ’غیر ضروری اور خواہ مخواہ رکاوٹ ڈالنے والے سوالات‘ سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، دوسری طرف والدین میں آگاہی پیدا کی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے ویکسی نیشن کا مطالبہ کریں۔ ہم ایک خوفناک وائرس سے نمٹ رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہر کوئی اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ والدین، سیاستدان، مذہبی علما، معاشرے کا درد رکھنے والے اور مشہور افراد اس عظیم مقصد میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ ہم نے ہر بچے تک پہنچنا ہے لیکن ایسا اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ایک قومیت کے عدم اعتماد، اور مسئلے سے گریز کی پالیسی کا تدارک نہ کیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)