• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

پاکستان کے علاقوں میں روز افزوں بڑھتی ہوئی گرمی ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے جو کراچی کے شہریوں کے لئے بارش کی کمی ، سبزے کے فقدان، سیمنٹ کی تعمیرات کے جنگل اور اسفالٹ کی کالی سڑکوں کے جال کے سبب انتہائی تکلیف دہ بنتا جارہا ہے۔ جب کہ کراچی بحرعرب کے کنارے پر واقع ہے، جس کے سبب سمندر کی ٹھنڈی اور مرطوب ہوا سندھ کے اندرون کے مقابلے میں کراچی میںگرمی میں کافی کمی کا باعث ہوتی ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ کراچی کے شہریوں کو دنیا کے دوسرے میگا شہروں کے مقابلہ میں پانی کی بہت کم مقدار ملتی ہے۔ زمینی آب وہوا میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کریاتی تپش کے سبب ہے اور پاکستان اس سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔

عالمی طور پر کریاتی تپش میں کمی کے لیے ہمارے تحقیقی اداروں میں بھی کام کیا جا سکتا ہے ۔ کرۂ ارض میں آب و ہوا کی تبدیلی کی گھڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، جس کی واپسی کے لئے ہم کوکریاتی تپش کی گیسوں (Global warming) کے اخراج کی منفی ٹیکنالوجیز پر اعتماد کرنا ہوگا۔ جن کے ذریعہ ہم اپنی فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چوس کراس کوزمین اورسمندروں کی تہوں کے نیچے صدیوں کے لئے دفن کرکے اس کو اپنی فضاسے خارج کرسکتے ہیں۔ 

اس کے لئے میرین جیو انجنیئرنگ( بحری ارضیاتی انجنیئرنگ) کے شعبہ میں تحقیق و ترقی ضروری ہے گو ابھی یہ ٹیکنالوجیز ابتدئی مرحلوں میں ہیں جوواضح طور پر اپنے اہداف کے حصول میں کارگر ہوسکتی ہیں، جس کے لئے انٹر گورنمینٹرل پینل آف کلائیمیٹ چینج (IPCC) کا اشتراک ضروری ہے۔کریاتی تپش کو صنعتی دور سے پہلے سے1.5 ڈگری سے زیادہ درجہ ٔ حرارت پرواپس لانے کے لیے20 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو2100ءتک ماحول سے چوس کر خارج کرنا ہوگا۔

ماہرین کے مطابق چند لوگوں کے لئے اس کو سمندر کی تہوں کے نیچے دفن کرناخو ش کن ہوسکتا ہے ،کیوں کہ سمندر خشکی سے بہت زیادہ بڑا ہے اور اس میں دفن کرنے میں وہ تنازعات بھی پیدا نہیں ہوں گے جو اس کوخشکی پر دفن کرنے میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً سمندری پانی میں لوہے کی تحلیل سے اس میں فائیٹو پلانکٹون کی پیدائش میں تیزی پیدا ہوگی ،جس میں فضا سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خرچ ہوگی اور فائیٹو پلانکٹن کی موت کے بعد ان کی باقیات کی کافی بڑی مقدار کاربن کی شکل میں گہرے سمندر کی تہہ میں بیٹھ جائے گی۔ایک دوسری تجویز کے مطابق اگر سمندری پانی کو فضا میں اسپرے کیا جائے تواس کے سبب بادل بن جائیں گے جو سورج کی شعاعوں کو خلاء میں واپس منعکس کرکے کرۂ ارض کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہوں گے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کریاتی تپش کو محفوظ لیول پر رکھنے اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کو محدود رکھنے کے لیے اس قسم کی ٹیکنالوجیز کو بہت بڑے پیمانہ پر استعمال کرنا ہوگا۔ مثلاً کاربن ڈائی آکسائید کو اس کے کیمیائی طور پر اخراج کے لیے پورے بحر الکاہل پر ایک پائوڈر کی شکل میں چاک جیسے منرل کو چھڑکنا ہوگا، جس کی ایک ارب ٹن مقدار درکارہوگی۔ اور اگر اس کے فضامیں اخراج کی کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو پالیسی سازوں پر اگلے ایک عشرہ میں ان تجویزوںپر عمل درآمد کرنے لئے دبائو بڑھ جائے گا۔

ان جیسی ادھوری تحقیقات کے کلی اثرات ابھی نامعلوم ہیں، کیوں کہ سائنسدانوں کے درمیان جیو انجنیئرنگ کی حیثیت ابھی متنازع ہے۔اس لیے کچھ تحقیقات کے بعد بہت سے منصوبے ملتوی ہوگئے ،کیوں کہ قواعد کی غیر موجودگی کے سبب مفادات کے تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹیکنالوجیز کی پیٹینٹ کے مسائل بھی پیدا ہو ں گے۔ اسی لئے ابھی ان کے لئےدرکار بنیادی آلات اور مشینوں کے ٹیسٹ بھی نہیں ہوئے ہیں۔

چنانچہ معلومات کا یہ فقدان اورجیو انجنیئرنگ کی تحقیقات کے لیے درکار عالمی ضوابط اور قوانین کی غیر موجودگی اس کی اگلے مرحلے کی تحقیق میں رکاوٹ ہیں۔پالیسی سازوں اور تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کو یہ معلوم ہو کہ کونسی منفی اخراج کی ٹیکنالوجیز ریسرچ کے بعدسود مند ثابت ہوں گی اور کون سی نقصان دہ ہوں گی ۔

پہلے قدم کے طور پر یو نائیٹیڈ نیشنز کا 2016 ءمیںجائنٹ ایکسپرٹ کا گروپ قائم کیا گیا تھاجن کو میرین جیو انجنیئرنگ کی مختلف ٹیکنالوجیز کا ماحول اور معاشرے پر اثرات کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرنی تھیں۔ان کی ذمہ داری تھی کہ انٹرنیشنل میری ٹائم انجنیئرز اور چند بین الاقوامی ادروں کو میرین پلوشن اور ویسٹ ڈمپنگ جیسے معاملات پر سفارشات مہیا کرے۔ جس میںان میرین جیوانجنیئرنگ کی ٹیکنکوں کی نشاندہی کی کوشش کی گئی ،جن میں اب تک کی گئی تحقیق ناکافی تھی ،پھراس کے لئے ایک بنیادی سائنٹیفیک شہادت کا ادارہ قائم کیا گیا جس نے اگلے تین سالوں میں ایسا مواد فراہم کرنا ہے جو پالیسی سازوں کو ان میرین جیو انجنیئرنگ کی تیکنیکوں کی بابت آگاہ کیا جائے جن میں ریسرچ کے بہترین امکانات ہیں، تاکہ ان میں تحقیق کو آگے بڑھایا جائے اور ساتھ ہی ان کے ضابطے اور قوانین مرتب کئے جائیں اور دوسری تیکنیکوں کو ترک کردیا جائے۔

GESAMP کے ادارہ نے27 میرین جیوانجنیئرنگ کی مختلف تجویزوں پر غور کیا۔جن میں ایک سمندر کی سطح پر سورج کی شعاعوں کو واپس خلاء میں منعکس کرنے والا فوم پھیلانے کی تجویز بھی تھی جو کاربن ڈائی آکسائیدکو کاربن میں تبدیل کرکے گہرے سمندر کی تہہ میں بچھادے۔ان تجاویز میں زیاد تر تحقیقات ابھی اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہیں۔ان میں سے چند خیالات مثلاً زرعی فضلے کو سمندر کی تہہ میںڈالنے کا معاملہ ابھی تجربے کے مراحل میں نہیں آیا ہے ،کچھ کمپیوٹر پر جائزوں کے اسٹیج پر ہیں۔جب کہ دس تجاویز کے پائلٹ پروجیکٹ فیلڈ میں کئے جاچکے ہیں۔

ان تحقیقات میں بہت سی باتیں غیر معلوم ہیں۔ مثلاً سمندری پانی اور دوسرے ایروسول (aerosols)کو فضا میں اسپرے کرکے بادلوں کے بیج پھیلائیں جو فضاکی نمی سے بادل بنادے گی یا ان کی مقدار میں اضافہ کردے گی جو سمندر پر گرنے والی سورج کی شعاعوں کو واپس خلاء میں منعکس کرکے کریاتی تپش کو کم کرنے میں معاون ہوگی، جس طرح بحری جہاز سے نکلنے والا دھواں بادل بنادیتاہے۔ جب کہ تجربہ گاہوں میں پانی میں نمک ملاکر اس پر تجربات بھی ہوئے ۔

لیکن ابھی تک سمندری پانی کو فضا میں اسپرے کسی نے بھی نہیں کیا ۔ چوں کہ اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سمندری پانی میں جوسمندری حیات ہوتی ہیں وہ اسپرے کے سوراخوں کو بند کرسکتی ہیں۔ چنانچہ GESAMP کے ایک ممبر جان کلین کی رپورٹ کے مطابق اگر ایسا ہو تو کم قیمت والے فلٹر بنا لیےجائیں جو سمندری حیات کو روک کر صرف پانی کو گذرنے دیں۔اس تحقیق میں فنڈز کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ 

ماہرین کے مطابق اس کے چند بنیادی ٹیسٹوں کے پروگرام انتہائی کم قیمت ہیں اور بہت سے کام تو کمپیوٹر پر بھی کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ تجربہ کہ کیا معدنیات کے پائوڈر میں غیر ضروری معدنی اجزاء کی موجودگی سمندر کی حیات کے لئے زہریلی ہوسکتی ہیں؟ اس کے علاوہ منفی اخراج کی ٹیکنالوجیز میں سے یہ ایک تجربہ کہ چٹانوں کی توڑپھوڑ سے سمندر کے پانی کے الکلی پن میں اضافہ کے تجربات کے لئے تو برطانیہ میں رقم فراہم کردی گئی ہے ۔

اس کے علاوہ چند ماڈلنگ کے لئے جرمنی اور جاپان میں کام جاری ہے۔ جب کہ چلی میں ایک پرائیویٹ فرم نے سمندر میں لوہے سے اس کی فرٹیلائزیشن میں اضافے کے ایک پائلٹ پروجیکٹ میںمچھلیوں پر اس کے اثرات کے جائزہ کے لیے فنڈ فراہم کیاتھاجو ترک کردیا گیا ہے ،کیوں کہ اس سے پلانکٹون کی پیدائش میں تو زیادتی ہوئی لیکن ایلجی سے میتھین گیس کے اخراج سے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگاجو خود ایک گرین ہائوس گیس ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے زیادہ خطرناک ہے۔

سمندر کے الکلی پن میں اضافہ کا تجربہ بھی لوہے سے سمندر کی فرٹیلائزیشن کی طرح بڑے پیمانہ پر متاثر کرے گا۔اسی طرح کمپیوٹر کے ماڈل میں بحرا لاکاہل کی سطح پر غذائیت سے بھر پور سرد پانی کے اسپرے سے درجہ ٔ حرارت میں کمی ہوگی جو زمین کی کریاتی تپش میں کمی کا بھی باعث ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین