وہ ایک سادہ اور سیدھے سے انسان تھے لیکن ان کے بارے میں لکھنا بہت مشکل ہے۔ پروفیسر وارث میر کی زندگی اور کردار کے ہر پہلو پر بے شمار صفحات لکھے جا سکتے ہیں۔ آج میں ان کے حوالے سے کچھ ذاتی یادیں نئی نسل کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ پروفیسر وارث میر نے جن حالات میں کلمہ حق کہنا شروع کیا وہ حالات آج بھی موجود ہیں۔ وہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش جن خطرات کی نشاندہی اپنی زندگی میں کرتے رہے وہ خطرات آج بھی موجود ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروفیسر وارث میر کی فکری دیانت زیادہ آب و تاب کے ساتھ سامنے آ رہی ہے۔ پروفیسر وارث میر 9جولائی 1987کو انتہائی پُراسرار حالات میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ زندگی کے آخری دنوں میں ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ ہمارے کچھ مشترکہ دوست تھے اور ان میں سے ایک سرور بٹ بھی تھے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ وہ گھر کا سودا سلف خرید کر لاتے، سبزیاں اور گوشت میرے فریج میں رکھتے اور سرور بٹ صاحب کے ہمراہ کسی اور کو ملنے چلے جاتے۔ واپس آتے۔ میرے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے۔ ہم دونوں اپنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے اور پھر پروفیسر وارث فریج سے اپنا سامان نکال کر گھر چلے جاتے۔ وہ نہ صرف دوسروں کے بارے میں سچ بولتے تھے بلکہ اپنے بارے میں بھی سچ بولتے۔ اکثر اوقات میرے ساتھ اپنے ذہنی ارتقا پر گفتگو کرتے۔ وہ صرف دوسروں کے نہیں اپنے نقاد بھی تھے۔ ماضی میں اپنے فکری مغالطوں کا ذکر کر کے خود بھی ہنستے اور شرکائے محفل کو بھی خوب ہنساتے۔ ان کی گفتگو سن کر بہت سے لوگ اپنے فکری مغالطوں اور کج رویوں سے آزادی پا لیتے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اپنے جوبن پر تھا اور موصوف شریعت کے نام پر پاکستان میں فسطائیت پھیلا رہے تھے تو پروفیسر وارث میر اس فسطائیت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے قوم کو خبردار کیا کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر اسلام کے نام پر جمہوریت کے حامیوں کو غدار اور کافر قرار دے کر پاکستان کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہا ہے اور یہ انتہا پسندی آنے والے وقت میں قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ جب لاہور میں خواتین کے حقوق کے لئے جلوس نکالنے پر عاصمہ جہانگیر پر کفر کے فتوے لگائے گئے تو پروفیسر وارث میر ان فتوؤں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ وہ قرآن و حدیث کا سیاسی استعمال کرنے والوں کے مقابل قرآن و حدیث سے ہی حوالے نکال کر لاتے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے 1985میں غیرجماعتی انتخابات کرائے تو پروفیسر وارث میر نے لکھا کہ یہ غیر جماعتی سیاست پاکستان میں ذات برادری، رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرت اور فرقہ وارانہ گروہ بندیوں میں اضافہ کرے گی۔ وقت نے ان کا مؤقف درست ثابت کیا۔
پروفیسر وارث میر نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ارباب اختیار کو بار بار متنبہ کیا کہ 1971میں مشرقی پاکستان میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے اور چھوٹے صوبوں کی محرومیاں دور کی جائیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ جنرل ضیاء کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے سندھ میں احساس محرومی بڑھا ، ساتھ ہی وہ بھٹو دور میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کو بھٹو صاحب کی بہت بڑی غلطی شمار کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں مجھے بھی کچھ عرصہ اقتدار کے ایوانوں کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ بھٹو صاحب نے وفاقی وزیرِ تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ کو ایک سمری بھیجی جس میں کہا گیا کہ صوبوں میں موجود پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں دفاعی اداروں کے لئے مخصوص نشستوں کا کوٹہ قائم کیا جائے۔ وزیرِ تعلیم نے جواب میں لکھا کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ چھوٹے صوبوں میں میرٹ پر آنے والے طلبا و طالبات کو ان کے حق سے محروم کرے گا۔ ایک دن میں نے یہ تفصیل پروفیسر وارث میر کو بتائی تو انہوں نے اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ کر لیا اور کہا کہ وہ پرسوں مزید گفتگو کرنے کے لئے آئیں گے لیکن جب پرسوں آیا تو وہ ہم سے بہت دور چلے گئے۔ ان کے اچانک انتقال پر ہر کسی نے سوال کیا کہ یہ سب کیسے ہوا کیونکہ ڈکٹیٹر کی طرف سے ڈرانے دھمکانے کے باوجود بظاہر وہ بالکل صحتمند تھے۔ ان کے انتقال کے بعد عاصمہ جہانگیر نے ان کا پوسٹ مارٹم کرانے کی کوشش کی کیونکہ انتقال کے بعد ان کا جسم نیلا ہو چکا تھا لیکن افسوس کہ پوسٹ مارٹم نہ ہو سکا۔ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ پروفیسر وارث میر دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ حبیب جالب نے پروفیسر وارث میر کی پہلی برسی پر 9جولائی 1988کو ہمیں یہ نظم سنائی تھی؎
حق پرست و صاحبِ کردار وارث میر تھا
آمروں سے برسرِ پیکار وارث میر تھا
اس کی تحریروں کے رہتے تھے ہم منتظر
سچ تو یہ ہے حاصلِ اخبار وارث میر تھا
وقف تھا اس کا قلم، انسانیت کے واسطے
اہلِ غم کا مونس و غم خوار، وارث میر تھا
فکر اس کی اصل میں ملائیت کی تھی شکست
ذی نگاہ و واقفِ اسرار، وارث میر تھا
لفظ اس کا تیر تھا، باطل کے سینے کے لئے
اہلِ حق کا قافلہ سالار، وارث میر تھا
ظلم سہتا تھا، نہیں کہتا تھا ظلمت کو ضیاء
آنسوؤں کو پی کے نغمہ بار، وارث میر تھا
دوست تھا وہ بےمثال اور آدمی تھا بے نظیر
سربسر جالبؔ محبت پیار، وارث میر تھا