لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے والی وادی سوات کی بیٹی، ملالہ یوسف زئی کو دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں اسکول سے واپسی پر مسلح دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
اس بچی کی طاقت اس کا قلم بنا، جس کی سیاہی اس نے دہشت گردی کے خلاف لکھنے میں صرف کی۔ آج کا مضمون اس نہتی لڑکی کی ہمت و بہادری کی داستان پر ہے۔
ابتدائی زندگی
ملالہ یوسف زئی 12جولائی 1997ء کو وادی سوات کے شہر مینگورہ میں پیدا ہوئی۔ ملالہ ایک ایسی نوجوان سماجی کارکن ہے جس نے کم عمری میں ہی دہشتگردوں کی مخالفت کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بے باک اور نڈر انداز میں گفتگو کی۔
بچپن اور ابتدائی فلسفہ
ملالہ کے والد نے سوات کے گاؤں مینگورہ میں خوشحال ہائی اسکول اینڈ کالج کے نام سے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔2007ء میں چھٹیوں کے دوران دہشتگردوں نے اس ادارے پر حملہ کیا، جو کہ لڑکیوں کی تعلیم کے شدید خلاف تھا اور ان کے نزدیک لڑکیوں کی تعلیم جائز نہیں تھی۔ انہوں نے سوات بھر میں لڑکیوں کے اسکولوںکو نشانہ بنایا اور یوں وادی کے متعدد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ یکم ستمبر 2008ء کو ملالہ نے صرف 11سال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ دہشتگردوں کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف پشاور پریس کلب میں صدائے احتجاج بلند کی، اس احتجاج کےدوران ملالہ نے اپنی پہلی تقریر کی۔ 2008ء کے اختتام پر کالعدم جماعت ٹی ٹی پی نے اعلان کیا کہ15جنوری 2009ء تک سوات کے تمام گرلز اسکولزبند کردیئے جائیں گے۔ اسی دوران برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سےملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی سمیت ایک شخص سے درخواست کی گئی کہ وہ سوات میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مظالم سے متعلق بلاگنگ کا آغاز کریں، جس کے بعد والد کے کہنے پر ملالہ یوسف زئی نے گل مکئی کے نام سے سوات کے باشندوں کی روزمرہ زندگی سے متعلق تحاریر کا آغاز کیا۔ وہ جنوری سے مارچ تک قلیل عرصے میں برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے 35بلاگزتحریر کرچکی تھی، جن کا بعد میں انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔دریں اثناکالعدم ٹی ٹی پی نے سوات میں موجود تمام گرلز اسکولوں کو بند کردیا، اس دوران 100سے زائد افراد جاں بحق بھی ہوئے ۔
فروری 2009ء میں ملالہ یوسف زئی نے پہلی بارسینئر صحافی اور جیو نیوز کےمیزبان حامد میر کےپروگرام کیپٹل ٹاک میں شرکت کی۔ اسی ماہ کے آخر میں پاکستان میں اُٹھنے والے ردِعمل کے باعث کالعدم ٹی ٹی پی اس بات پر رضامند ہوگئی کہ لڑکیاں برقع پہن کراسکول جاسکتی ہیں، تاہم ان کی جانب سے تشدد کا سلسلہ چند ماہ بعد ہی دوبارہ شروع ہوگیا، جس کے باعث ملالہ اپنی فیملی کے ساتھ سوات چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔2009ء کی شروعات میں برطانوی رپورٹر کی جانب سےملالہ پر13منٹ پر مشتمل ایک ڈاکیومینٹری بنائی گئی، اس دوران ملالہ کی ٹیلی ویژن اور ٹاک شوز پر آمد میں اضافہ ہوگیا اور وہ برطانوی ویب سائٹ کی ایک نوجوان بلاگر کے طور پر پہچانی جانے لگی۔2011ء میں ملالہ کو ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔اسی سال دسمبر میں وہ پاکستان کے نیشنل یوتھ امن نوبیل پرائز کی حقدار ٹھہری۔
ملالہ پر حملہ
اکتوبر2012ء میںطالبان کی جانب سے مینگورہ میں ایک اسکول وین کو گھر جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں ملالہ سمیت دو اور طالبات بھی زخمی ہوئیں۔ ابتدائی علاج کے بعد ملالہ کو انگلینڈ منتقل کر دیا گیا، جہاں مکمل صحت یابی کے بعد ملالہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسفہ، سیاست اور معاشیات سے متعلق حصول علم میں مصروف ہوگئیں۔ دوسری جانب 2009ء کے بعد پاکستانی فوج نے سوات میں آپریشن کرکے حکومت پاکستان کی رٹ بحال کی اور اس کے بعد سے ان اسکولوں کی بحالی کا کام شروع کردیا۔ ملالہ کے ہی بقول پاکستان سے اب دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے ۔
اعزازات
ملالہ کیلئے 2014ء کا سورج کامیابی کی نوید لے کر طلوع ہوا۔ اکتوبر2014ء میںملالہ کو بچوںاور لڑکیوںکی آزادی اورتعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے پر بھارت کے سماجی کارکن کیلاش ستھیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر امن کے نوبل انعام سے نوازاگیا۔ دوسری جانب کینیڈا کی طرف سے اعزازی شہریت، یونیورسٹی آف کنگز کالج اور ہیلی فیکس کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی دو کتابوں کی مصنفہ بھی ہے، جن میں سے ایک’’میں ہوں ملالہ‘‘ اور دوسری ’’وی آر ڈس پلیسڈ‘‘ہے، جس کی رونمائی حال ہی میں کی گئی ہے۔