• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلک بوس عمارتوں کی تعمیر چین نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا

آسمان کو چُھوتی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کا رجحان گزشتہ سال بھی دیکھنے میں آیا۔ ماہرین کے مطابق، ایسی عمارت جو کم از کم 200میٹر یعنی 660فٹ بلند ہو، وہ عالمی معیار کے مطابق فلک بوس یا بلند و بالا عمارت کہلانے کی حقدار ہوتی ہے۔ اس معیار کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں کم از کم 143فلک بوس عمارتیں تعمیر کی گئیں، 2017ء کے مقابلے میں یہ تعداد کچھ کم ہے۔ معمولی سی کمی کے باوجود، ایک سال کے دوران سب سے زیادہ فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کی یہ دوسری بڑی تعداد ہے۔

عمومی جائزہ

اعدادوشمار کے مطابق 2017ء کے دوران دنیا بھر میںتعمیر کی جانے والی فلک بوس عمارتوں کی تعداد 147تھی۔ اس اضافے کے بعد دنیا بھر میں تعمیر ہونے والی 200میٹر یا اس سے زیادہ بلند عمارتوں کی تعداد 1,478ہوچکی ہے۔ 2010ء میں ایسی عمارتوں کی تعداد 614 تھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران فلک بوس عمارتوں کی تعداد میں 141فی صد کا زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔

2018ء: تاریخی لحاظ سے دوسرا بہترین سال

اگر 2018ء کی بات کریں تو اس سال تعمیر ہونے والی 143فلک بوس عمارتوں کی مجموعی اونچائی 35,246میٹر یعنی 115,636فٹ رہی۔ اس اونچائی کو دوسری مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر گزشتہ ایک سال کے دوران تعمیر ہونے والی تمام فلک بوس عمارتوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے تو ان کی لمبائی جزیرہ مین ہٹن سے تجاوز کرجائے گی۔

اگر ملکوں کی بات کی جائے تو 2018ء میں مسلسل 23ویں سال، سب سے زیادہ فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے کا ریکارڈ چین نے برقرار رکھا۔ 2018ء میں مکمل ہونے والی 143فلک بوس عمارتوں میں سے 88فلک بوس عمارتیں چین میں تعمیر کی گئیں۔ 2018ء میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت بھی چین میں تعمیر کی گئی۔ بیجنگ میں تعمیر ہونے والے Citicٹاور کی اونچائی 528میٹر یعنی 1,732فٹ ہے۔ سِٹک ٹاور کی 108منزلیں ہیں اور یہ چین کی چوتھی بلند ترین عمارت ہے۔ اس کا شمار دنیا کی آٹھویں بلند ترین عمارت کے طور پر ہوتا ہے۔

2018ء میں دوسری بلند ترین عمارت ویتنام کے شہر ’ہوچی منہ‘ میں تعمیر کی گئی۔ ہوچی منہ میں تعمیر ہونے والے وِنکام لینڈ مارک 81کی اونچائی 469.5میٹر یعنی 1,540فٹ ہے۔ سال کی تیسری بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا اعزاز بھی چین کے نام رہا۔ چین کے شہر چانگشا میں تعمیر ہونے والے آئی ایف ایس ٹاور T1کی اونچائی 452میٹر یعنی 1,483فٹ ہے۔

2018ء کے دوران فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں چین کا حصہ 61.5فی صد رہا۔ چین میں سب سے زیادہ فلک بوس عمارتیں اس کے جنوبی شہر شینزن میں تعمیر ہوئیں، جن کی تعداد 14ہے۔ اس طرح شہروں کی انفرادی درجہ بندی کے لحاظ سے شینزن نے مسلسل تیسرے سال یہ اعزاز اپنے نام کیے رکھا۔ شینزن میں دنیا کے دیگر بڑے شہروں دبئی، بیجنگ اور نیویارک کے مقابلے میں زیادہ فلک بوس عمارتیں تعمیر ہوئیں۔2018ء میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے دوسرے نمبر پر امریکا رہا، جہاں ایک سال کے دوران مجموعی طور پر 13فلک بوس ٹاور تعمیر کیے گئے۔ 10بلند عمارتیں تعمیر کرکے متحدہ عرب امارات نے اس فہرست میں تیسری پوزیشن پر جگہ بنائی۔

دنیا کے دیگر حصوں کی بات کریں تو جنوبی امریکا میں بیونس آئرس، ارجنٹائن، بوگوٹااور کولمبیا میں ان کی تاریخ کے بلند ترین ٹاور تعمیر کیے گئے اور انھوں نے اپنے ریکارڈ کو بہتر بنایا۔ اسی طرح سان فرانسسکو اور میامی نے بھی اپنی تاریخ کے بلند ترین ٹاور تعمیر کیے۔ سان فرانسسکو میں گزشتہ سال سیلز فورس ٹاور تعمیر کیا گیا، جس کی اونچائی 326میٹر یعنی 1,070فٹ ہے جبکہ میامی میں تعمیر ہونے والے شہر کے بلند ترین ٹاور ’پنوراما ٹاور‘ کی اونچائی 252میٹر یعنی 827فٹ ہے۔ 2018ء کے دوران فلاڈیلفیا میں بھی بلند ترین ٹاور تعمیر کیا گیا، جس کی اونچائی 342میٹر یعنی 1,121فٹ ہے۔

2019ء: توقعات کیا ہیں؟

توقع کی جارہی ہے کہ 2019ء کے دوران دنیا بھر میں 120سے 150کے درمیان نئی فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جائیں گی، جن کی کم از کم اونچائی 200میٹر ہوگی۔ مزید برآں، چین کی معیشت میں خدشات کے پیشِ نظر، وہاں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں سست روی دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’ہرچندکہ 2018ء چین کی تعمیراتی صنعت خصوصاً فلک بوس عمارتوں کے لحاظ سے اہم سال رہا ہے، تاہم چین اپنی معیشت کو استحکام دینے کی جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے (مثلاً مالیاتی کنٹرول میں اضافہ اور قرض دینے میں کمی)، ان کے نتیجے میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر پر اس کا غلبہ کمزور پڑسکتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ چین نے اپنی اسٹیل سازی کی صنعت پر ٹیرف بڑھا دیے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں تعمیرسازی مہنگی ہوجائے گی۔

تازہ ترین