• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آصف علی زرداری؟ پاکستان کا ایک ایسا فرد جسے ’’مرد حُر‘‘ کا خطاب مل چکا، وہ سیاستدان جس نے مصائب و اذیت کے عقوبت خانوں میں زندگی کے کئی برس گزار دیئے، ایسا بلوچ سردار جس کے لوگ اس پر جاں نثار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ایک ایسا متحرک موضوع جس کی حرکیات آپ کے لئے ہر بار نئے فکری اور سیاسی افق سامنے لے آتی ہیں۔

مثلاً اکیس جون 2019کو جب آصف علی زرداری اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے، اس پیشی کے حوالے سے ہمارے اعزاز سید نے دلچسپ رپورٹنگ کی، اپنے کالم میں بھی اس کا ذکر کیا۔ لکھتے ہیں ’’اکیس جون کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق صدر آصف علی زرداری کو ان کے جسمانی ریمانڈ میں پہلی بار توسیع کے لئے جج ارشد ملک کے سامنے پیش کیا گیا۔ نیب کے تفتیشی افسر نے مزید چودہ دن کے ریمانڈ کی توسیع مانگی تو آصف علی زرداری اٹھ کر روسٹرم پر آ گئے۔ بولے جناب چودہ دن کا کیوں نوے دن کا ریمانڈ دے دیں، سب مسکرانے لگے البتہ نیب اہلکار ضرور حیران ہوئے۔ ایک موقع پر آصف زرداری نے کہا: ’’جناب! وہ ڈرنے والے کوئی اور ہیں، ہم ڈرنے والے نہیں، میں تیرہ سال کی قید تنہائی کاٹ چکا ہوں‘‘ اعزاز نے اپنی بات اس کالم میں بے حد معنی خیز طریقے سے ختم کی۔ کہتے ہیں: آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات اس روز سے ہیں جب سے انہوں نے بے نظیر بھٹو سے شادی کی، ان کا اپنا رویہ بھی کھلنڈرا ہے۔ زرداری کی سیاست کا فین تھا نہ ہوں لیکن زرداری جس طرح عدالتوں کا سامنا کرتے، جیلیں کاٹتے اور پریشانی کے لمحات میں دانت نکالتے مسکراتے ہیں، ان سب باتوں کا ضرور فین ہوں، عدالتوں کے انہی احاطوں میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی دیکھ چکا ہوں، کوئی ایک بھی آصف زرداری کی طرح عدالت آیا نہ جیل گیا۔ میرے خیال میں پاکستانی سیاست میں بہتر سیاسی موقف ہی نہیں جوانمردی سے جیل کاٹنا بھی دشمنوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے، اگر آپ صاف شفاف ہوں، کرپشن کا کوئی داغ بھی نہ ہو تو سونے پہ سہاگہ، آپ جوانمردی سے گرفتار ہوں، جیل جائیں تو بھی مثال بن جاتے ہیں مگر چور دل کے ساتھ اقتدار میں بیٹھ کر چھپکلی سے ڈر جائیں تو بھی ایک مثال۔

چور دل کے ساتھ اقتدار میں کون بیٹھا ہے؟ یہ موضوع سدا بہار ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج سمیت ایسے ’’چوروں‘‘ کی مثالوں کا کوئی قحط نہیں لیکن زیرِ بحث آصف علی زرداری کی شخصیت ہے جس کے بیانئے میں نئے نئے رخ اپنے تانے بانے بننے لگتے ہیں۔

اب یہی دیکھ لیں، آصف علی زرداری کو 5جولائی 1977کے شب خون کا قیدی بھی کہا جا سکتا ہے، بھلا وہ کس طرح جبکہ اس وقت تو آصف علی زرداری کی بھٹو خاندان کے قرب و جوار میں کسی حرف غلط جیسی نشاندہی بھی نہیں ہوتی، پھر بھی اسے اس ’’شب خون‘‘ کا قیدی کہنا اس کے ساتھ عین انصاف ہے۔

اس لئے کہ جب اس نے بے نظیر شہید کے ساتھ شادی کر لی، گویا آزادی، انسانی حقوق، آئین کی بالادستی، جمہوری تسلسل، عورت کی عظمت اور انتہاء پسندی کی عظیم مخالفت علامت کی زندگی میں داخل ہو گیا، وہ بھی ان قوتوں کا ٹارگٹ اور قیدی بن گیا جنہوں نے 15اگست 1947کی صبح ہی سے اس ملک کے اقتدار کی امانت پر طاقت سے قبضہ کر لینے کا فیصلہ کر لیا تھا، یہ طاقتور فیصلہ آج بھی سر بلند ہے، کوئی اسے چیلنج نہیں کر سکتا، تاآنکہ مکافاتِ عمل کے قدرتی قوانین حرکت پذیر ہو جائیں۔ آصف علی زرداری نے اپنی ضمانت کی تمام درخواستیں واپس لے لی ہیں، یہ کس سچائی کا پیغام ہے ہم گو لکھ نہیں سکتے مگر آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

موجودہ حکمران آصف علی زرداری کے اسیر کنندگان ہیں؟ یہ ایک اور سوال ہے جس کا جواب بھی یہی ہے ’’ہم گو لکھ نہیں سکتے مگر آپ سمجھ گئے ہوں گے‘‘ جس مصیبت کا طاقتور لوگ شکار ہیں وہ ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی وہ دیوار ہے جس کے آگے پاکستان کے عوام سینہ تان کے کھڑے ہیں، ہم رہیں یا نہ رہیں، عوام کی اس نظریاتی طاقت کے سامنے عبرت ناک شکست ان قوتوں کا مقدر ہے۔ پاکستان میں سیاستدان، قلباً محترم ہیں، محترم ہی رہیں گے، جھوٹ پر مبنی مفسدانہ پروپیگنڈہ کے تمام حربے اور اسٹریٹجز نامراد رہیں گی۔ یہ قانونِ قدرت ہے۔

وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے فعال رہنما نے کہا ہے ’’ان کی ذاتی سوچ ہے کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے سے پہلے ان لوگوں کو گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر چوراہوں پر گھمایا جائے اور پھر پھانسی دی جائے‘‘۔ ہم نے یہ الفاظ جناب عارف نظامی کے مقامی معاصر میں 29جون 2019کو شائع شدہ کالم سے مستعار لئے ہیں۔

وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے یہ بات ایک بار سے زائد کہی ہے۔ کیا وہ کوئی ایسا قانونی طریق کار بتا سکتے ہیں یا کوئی ایسا قانونی نظام بروئے کار لا سکتے ہیں جو پھانسی کے مستحق ان ’’پانچ ہزار‘‘ افراد کی فہرست مرتب کرنے میں مدد دے سکے۔ یہ قانون اسلام، انسانیت اور عدل کے تمام تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ پھر کیا وہ قانون کی کتابوں سے ایسی کوئی شق برآمد کر سکتے ہیں جو ’’پھانسی کے ان مستحقین‘‘ کو ’’تختہ دار‘‘ پر لٹکائے جانے سے قبل ’’گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر چوراہوں پر گھمانے‘‘ کی اجازت دیتا ہو، فیصل واوڈا ان سوالوں کا جواب ضرور دیں، بس ایک یادہانی ہم سب کے لئے ہے، کوئی چاہے بادشاہ ہے یا فقیر، طاقتور ہے یا کمزور، یہاں ایسے فیصلوں کا اعلان کرتے ہیں، مالک و خالق کے پاس ہماری اس عادت کے لئے بھی سوال موجود ہو گا، معلوم نہیں اس سوال کی پرچی دائیں ہاتھ میں پکڑائی جاتی ہے یا بائیں میں؟

فیصل واوڈا صاحب کی دہشت انگیز قسم کی گفتگو یا تجویز کے بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ’’نیشنل پاورٹی گریجوایشن اقدام‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، ایک دوسرے ٹائپ کے سخت گیر لہجے میں شہباز شریف کو مخاطب کیا، الفاظ یہ تھے۔ ’’شہباز شریف کہتے ہیں اتنی سزا دو جتنی برداشت کر سکو، ان کے لئے میرا پیغام ہے کہ میں تو موت بھی برداشت کر سکتا ہوں مگر مجھے پتہ ہے آپ موت برداشت نہیں کر سکتے‘‘، یہ منظر کسی بھی نقطہ نظر سے امید افزا نہیں، برسرِ اقتدار گروہ دنیا کی اس زندگی کے مواقع کو کچھ کچھ ’’ابدی‘‘ سمجھنے لگا ہے، اسے اندازہ نہیں، کوئی بھی اچانک وقوعہ سارے باغ کو بھسم کر سکتا ہے، اللہ سے ڈر کر بات کرنا چاہئے چاہے کوئی شہباز شریف ہو، فیصل واوڈا یا خود خان صاحب! کیا یہ ملک اس ماحول میں مثبت نتائج دے سکے گا؟

ابھی تو 6 جولائی کی مریم نواز پریس کانفرنس کے انکشاف دل دھلانے والے ہیں، معلوم نہیں تحریک انصاف کس کو تقدیر کا مالک سمجھ بیٹھی ہے؟

تازہ ترین