پولیس افسر اور ڈکیت سردار کی ٹیلی فونک گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل
شکارپور جہاں لوگ بدامنی کے ہاتھوں پریشان تھے، پولیس اور رینجرز کے آپریشنز اور ان کی قربانیوں کے نتیجے میں وہاں امن و امان کی فضا بحال ہوگئی تھی۔ لیکن چین و سکون کی یہ فضا عارضی ثابت ہوئی اور بار پھر یہ شہر جرائم پیشہ عناصر کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔ اس شہر میں جرائم کی واداتوں کے علاوہ، قبائلی تنازعات اور سیاہ کاری کی فرسودہ رسومات کے نام پر آئے روز لوگوں سے ان کی قیمتی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں۔ یہاں لوٹ ماراور ڈکیتیوں سمیت اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی وجہ سے لوگوں نے اپنے کاروبار ختم کردیئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں معاشی صورت حال بھی دگرگوں ہے۔شکار پور شہر میں نشہ آور،جعلی اور زائدالمیعاد ادویہ سمیت مضرِ صحت ملاوٹ شدہ اشیائے خورو نوش کا قبیح کاروبار بھی عروج پر ہے اور یہ کاروبار کرنے والےعوام دشمن عناصر کھلے عام لوگوں کی صحت اور جان کی پرواہ کئے بغیر کروڑ پتی بن رہے ہیں۔یہاںانتہا پسندی اور دہشت گردی کوپھلنے پھولنے کے بھرپور مواقع فراہم کیے گئے۔ ضلع شکار پور میں اس طرح کے تشویش ناک حالات پر حکومتِ سندھ،علاقے کے منتخب نمائندگان، ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام کی خاموشی اور بے بسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے شکارپورمیں قتل و غارت گری کے واقعات میں لوگوں کی اموات کا تناسب روز بہ روز بڑھتا ہوا نظر آیا ہے،جس سے ہزاروں لوگ ذہنی طور سےمتاثر ہوئے ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ تیرہ لاکھ کے قریب آبادی رکھنے والے اس ضلع کا ہر ایک فرد غیر یقینی صورتحال کی زد میں ہے۔زیادہ پیچھے نہیں جاتےاور صرف رواں ماہ کی ہی بات کریں جس کے دوران مختلف قبائلی تنازعات میں 14افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگ زخمی حالت میں اپنے گھر والوں کی توجہ کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ خواتین سمیت دس افراد کارو کاری جیسی فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے۔ مزید برآں پولیس کی جانب سے شکارپور کے کچے کے علاقےمیں شروع کئے جانے والےآپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی جانب سے جدید اسلحہ کے استعمال کے باعث مقابلے میں ایک ایس ایچ اواورایک اے ایس آئی نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ تین پولیس اہل کار شدید زخمی ہوگئے۔بعض لوگوں نے اس پولیس مقابلے کو مشکوک قرار دیا ہے، جو بعض پولیس اہل کاروں کی ڈاکوؤں سے ملی بھگت کا نتیجہ تھا جس میں دو فرض شناس افسران شہید ہوگئے۔ بارہ روز قبل اغواء برائے تاوان کی واردات میں چار نوجوانوں کو اغوا کر کے ان کے اقرباء سےبھاری تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔ مذکورہ نوجوانوں کو پولیس تاحال بازیاب کرانے میں ناکام رہی ہے۔ اس سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ اغوا کاروں کی جانب سے مبینہ طور پرمغوی نوجوانوں کے ورثاء کوتاوان کی رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں۔اسی طرح چوری اور ڈکیتی سمیت دیگر کئی وارداتوں کا معلوم ہوا ہے جن میں لوگ اپنی قیمتی اشیاء سے محروم ہوچکے ہیں۔یہ تو بات ہوئی ان واقعات کی جو رپورٹ ہوئے ہیں مزید نہ جانے ایسےکتنے واقعات ہیں جو شہر سمیت ملحقہ دیہی علاقوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن لوگ پولیس کے روئیے سے خوف زدہ ہوکر ان کی رپورٹ نہیں لکھواتے ہیں، جوکہ پولیس کی ناکامیوں کا واضح ثبوت ہے۔
کچھ روز قبل پولیس میں کالی بھیڑوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ باخبرذرائع کے مطابق ، آپریشن انچارج سی آئی اے پولیس عبدالقادر چانڈیواور سنگین جرائم میں مطلوب بدنام زمانہ ڈاکو منیر مصرانی کے درمیان گہرے روابط سامنے آئے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگوکی ریکارڈنگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل کے بعد تہلکہ مچ گیا ہے ۔کچے کے علاقے میں خوف کی علامت سمجھا جانے والے ڈاکو منیر مصرانی پر حکومت کی جانب سے 50 لاکھ روپے کا انعام بھی مقرر کیا گیا ہے۔اس وائرل ہونے والی آڈیو ٹیپ میں پولیس کے اندر کالی بھیڑوں کی موجودگی سمیت کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کئے جانے والے نام نہاد آپریشنز کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہےجب کہ کچھ عرصے قبل ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس مقابلے میں ایس ایچ اوغلام مرتضٰی میرانی اور اے ایس آئی ذوالفقار علی پہنور کی شہادت نے آڈیو ریکارنگ کے وائرل ہونے کے بعدمحکمہ پولیس کے دیانتداری کے بارے میں سوالات اٹھادئے ہیں۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ پینتیس برسوں سےضلع شکارپورکے مختلف علاقوں میں جاری خونریز تنازعات سمیت کچے کے علاقے میں ڈاکؤں کے خلاف آپریشنز میں پولیس کو ڈاکوؤں کی جانب سے سخت مزاحمت کاسامنابھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ پورے ضلع کا امن و امان تباہ کرنے والے ان جرائم پیشہ عناصر کے پاس وافر مقدارمیں جدید ہتھیاروں کی موجودگی سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ ڈاکوؤں کو امیونیشن کی فراہمی میں پولیس اہل کار اور علاقے کے بااثر افراد ملوث ہیں۔ ابھی کچھ ہی روز قبل پولیس کو اہل کاروں کو ملنے والے جدید اسلحے میں استعمال ہونے والی 35ہزار گولیوں کی گم شدگی کا معاملہ بھی منظرِ عام پر آیا ہے۔ ایس ایس پی شکارپور نے مذکورہ معاملے کی مزید چھان بین کے لئے آئی جی سندھ سے اجازت لینے کے بعد محکمہ اینٹی کرپشن کے سپرد کردیا ہے۔جہاں سے چیئرمین اینٹی کرپشن کی جانب سے شکارپور سرکل کے افسر عبدالوہاب برڑو کو ایک ہفتے کے اندر تحقیقات مکمل کرکے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق 35ہزار گم شدہ گولیوںمیں سے 25ہزار جی تھری اور 10ہزار ایس ایم جی کی گولیاں شامل ہیںجوکہ شکارپور،کندھ کوٹ اور سکھر اضلاع کے کچےکے عاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کلین اپ کے لئے فراہم کی گئی تھیں۔ مذکورہ گولیوں کو قبائلی تصادم اور ڈکیتی کی وارداتوں میں استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد ایس ایس شکارپور نے فوری طور سےآجی جی سند ھ سے رجوع کیا۔ اس حوالے سے اینٹی کرپشن شکارپور سرکل افسر عبدالوہاب برڑو کا کہنا ہے کہ"35ہزار گولیوں کی خورد برد کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران اے ایس آئی گلزار احمد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہاعلیٰ افسران کی تصدیق اور اجازت نامے کے بعد جو گولیاں پولیس اہل کاروں کو جاری کی جاتی ہیں ان کا پورا ریکارڈ ہوتا ہے۔ ان کی خورد برد میں صرف ایک اہلکار کیسے شامل ہوسکتا ہے۔ مقدمے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اہم چیزیں سامنے آئی ہیں، لیکن کاغذوں میں درج اعداد وشماراور فزیکلی رپورٹ آپس میں میل نہیں کھارہے۔مقدمے کی چھان بین کی جارہی ہے،جس کی اعلیٰ حکام سے اجازت ملنے کے بعد ایف آئی آر درج کرکے مزید تحقیقات کی جائے گی۔ ایک طرف جرائم پیشہ عناصر کے خلاف پورے ضلع میں پولیس کی جانب سے آپریشن کلین اپ جاری رہنے کے دعوے ہیں،دوسری جانب اس طرح کے واقعات سامنے آنے کے بعد شہری غیریقینی کی کیفیات کا شکار ہوگئے ہیں۔ کئی برسوں سےکچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری اس نام نہاد آپریشن کے باوجود آج بھی ان علاقوں میں ڈاکو راج قائم ہے، جہاں پولیس کی رسائی تک ممکن نہیں۔جس کے باعث یہ جرائم پیشہ لوگ آسانی سے شہروں میں داخل ہوکر کارروائی کرکے فرارہوجاتے ہیں۔یہاں قبائلی تنازعات کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔لوگوں کی زندگیاں،ان کی صحت،ان کی تعلیم اور ان کا کاروبار سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ شہر میں امن و امان، جرائم پیشہ عناصر، ڈکیت گروہوں اور قبائلی تازعات کا خاتمہ کرنے سے پہلے محکمہ پولیس سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ ضروری ہے ، اس کے لیے آئی جی سندھ کو فوری طور سے اقدامات کرنا چاہئیں۔