• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (رپورٹ : احمد نورانی) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف انتہائی غداری کے مقدمے میں ریکارڈ صاف رکھنے کے لئے چار بنیادی حقائق انتہائی اہم ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو بیرون ملک پروازکی اجا زت دی بلکہ عدالت عظمیٰ نے تو 16؍ مارچ 2016ء کے اپنے مختصر حکم میں اس حو الے سے سابق آرمی چیف کی تازہ ترین درخواست مسترد بھی کردی۔ اپنی پریس کانفرنس میں چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ یہ صرف مسلم لیگ (ن) ہی تھی جس نے سابق آمر کے خلاف انتہائی غداری کامقدمہ شروع کیا تاہم چوہدری نثار نے کچھ تذبذب کے ساتھ کہا ’’گوکہ ہم نے سپریم کورٹ کے حکم پر ایسا کیا‘‘ درحقیقت 3؍ نومبر 2007ءکو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمدچوہدری کی بحالی کے بعد عدالت عظمیٰ نے 31؍ جولائی 2009ء غیر آئینی قرار دے دیاتھا اور اسوقت پرویز مشرف بیرون ملک تھے۔ اعلیٰ عدلیہ نے درحقیقت دو تاریخی فیصلے دیئے جن سےواضح طور پر وفاقی حکومت کی جانب سےراستہ ہموار کرنے کی انتہائی کوششوں کے باوجود پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی ر اہ مسدود ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کانام ای سی ایل میں ڈالنے کا 2013ء میں حکم جاری کیا جب تک کہ یہ ایشو کسی عدالت میں ز یر سماعت نہیں ا ٓجاتا۔ یہ ایک عبوری حکم تھا، جس نے اس وقت اپنی افادیت کھودی جب سابق آمر کے کیسز ماتحت عدالتوںاور خصوصی عدالت میں زیر سماعت آئے۔ پرویز مشرف نے ای سی ایل سے اپنا نام نکالنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ میںدرخواست دی اور وفاقی حکومت نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ اس نےپرویز مشرف کانام ای سی ایل میں نہیںڈالا ہے۔ جس پر قانونی ماہرین نے بھنویں چڑھائیں جو یہ بات جانتے تھے کہ سپریم کورٹ کا 2013ءکا حکم عبوری تھا جو 2014ء میں موثر نہیں رہا۔ سندھ ہائی کورٹ کے استفسارکے باوجود حکومت نے سابق آمر کانام ای سی ایل میںڈالنے کی وجوہ بتانے یا ان کے خلاف ثبوت دینے سے احتراز کیا اور محض 2013ء میں عدالت عظمیٰ کے عبوری احکامات پر انحصار کرتی رہی جو قانونی طور پر موثر نہیں ر ہے جس پر سندھ ہائی کورٹ کے پاس پرویز مشرف کی درخواست قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کیونکہ دوسرا فریق (وفاق) اس کی مخالفت نہیں کررہا۔ تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اپنے ہی فیصلے پر 15؍ دن کا حکم امتناع جاری کردیا اس طرح اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کا حکومت کو موقع فراہم کیا جس پر حکومت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ سےرجوع کرے جو دلائل عدالت عالیہ میں دیئےگئے و ہ عدالت عظمیٰ میں دہرائے گئے۔ تاہم وفاقی حکومت کے سیاسی مقاصد اٹارنی جنرل کے دلائل میں و اضح تھے۔ سپریم کورٹ کی5؍ رکنی بنچ نے بارہا وفاقی حکومت پردبائو ڈالا کہ وہ ایشو پر و اضح موقف کے ساتھ سامنے آئے لیکن عدالتی کارروائی سےواضح ہے کہ طے شدہ سیاسی حکمت عملی کے تحت اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ پرویز مشرف کا ای سی ایل میں نام سپریم کورٹ کے حکم پر ڈالاگیا۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر حکومت ای سی ایل میں نام ڈالنا نہیںچاہتی تو سپریم کورٹ ایسا کرنے کے لئے حکو مت پر دبائو نہیں ڈال سکتی۔ تیکنیکی اور قانونی طور پر سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ سپریم کورٹ کو پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے یا نکالنے کا فیصلہ نہیں کرنا تھا بلکہ جج صاحبان کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا 2013ء میں سپریم کورٹ کا حکم جس پروفاقی حکومت انحصار کررہی تھی، وہ آیا عبوری یا حتمی حکم ہے۔ وہ واضح طور پر عبوری حکم تھا اور وفاق کے وکیل کے دلائل کی سمت بھی یہی تھی کہ پرویز مشرف کے حق میں حکم حاصل کرلیا جائے۔ لیکن ایک طرح سے اسے مشرف کے بیرون ملک جانے کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ تاہم بدھ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نہ صرف حکومت کی اپیل مسترد کررہی ہےا ور اس حکم سے حکومتی صوابدید متاثر نہیں ہوتی کہ وہ آرٹیکل 6 کے تحت انتہائی غداری کے مقدمے کے باعث پرویز مشرف کو حراست میں رکھے یا ان کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرے۔ فیصلے کے مطالعہ سے یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے کہ وفاقی حکومت کےا قدام سے ظاہر ہوتاہے کہ اس نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں برقرار رکھنے کی کوئی وجہ بتائی اور نہ ہی ثبوت دیا۔ سابق صدر کو انتہائی غداری کےمقدمے میں 31؍ مارچ 2016ء کو خصوصی عدالت میں پیش ہونا ہے جبکہ ایک دوسرے کیس میں ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں و اضح طور پر ذکر کردیا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے لئے حکومتی اپیل مسترد کررہی ہے۔ اس حکم سے حکومت کی صوابدید متاثر نہیں ہوتی کہ وہ انتہائی غداری کے مقدمے میں پرویز مشرف کو حراست میں رکھنے یا نقل و حرکت پر پابندی برقرار رکھے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے نام ای سی ایل میں رکھنے کے لئے و جوہ یا ثبوت نہ دیئے جانے کو واضح کیا۔ پرویز مشرف کو انتہائی غداری کے مقدمے میں 31؍ مارچ 2016ء کو خصوصی عدالت میں پیش ہونا ہے جبکہ دوسرے مقدمے میں ماتحت عدالت سے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ جمعرات کو اپنی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ انہیں ای سی ایل پر حکومت کی نئی پالیسی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔ جس کے تحت عدالتی احکامات کے بعد کوئی بھی شخص ای سی ایل میں ڈالا جاسکتا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت بھی ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے عدالتی حکم کی شرط لازمی نہیں ہے۔ عدالتی احکامات کے علاوہ نئی پالیسی کے مطابق دفاعی تنظیموں کے صدر دفاتر، ایف آئی اے اور نیب کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے وزارت داخلہ سے سفارش کرسکتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وزارت داخلہ ای سی ایل پر اپنی نئی پالیسی ویب سائٹ پر ڈالنے سےگریزاں ہے۔ بنیادی طور پر پرویز مشرف کو عدالت میں فرینڈلی ڈیفنس کے ذریعہ عدالتی فیصلے کے بعد بیرون ملک بھیجنے کا منصوبہ دو دفعہ الٹا پڑ گیا۔ کیونکہ اعلیٰ عدلیہ نے دو فیصلے تحریر کئے جن میں واضح طور پر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اس کے بجائے حکومت پر زور دیاگیا کہ وہ پرویز مشرف پر انتہائی غداری کا سنجیدگی سے مقدمہ چلائے۔ پرویز مشرف کے لئے انتہائی غداری کے مقدمے سے باہر نکلنے کا واحدراستہ یہ تھا کہ زیادہ سےزیادہ نام شامل کرکے چیزوں کو الجھادیا جائے جن میں جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، زاہد حا مد، سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور دیگر کے نام شامل ہیں البتہ سپریم کورٹ نے چند دنوں قبل تاریخی فیصلہ دیا جس میں ایمرجنسی کے نفاذ کا واحد ذمہ دار جنرل (ر) پرویز مشرف کو قرار دیا گیا جس کے نتیجے میں پرویز مشرف کے لئے انتہائی غداری کے مقدمے اور اس حو الے سے سزا سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اگر عدالت عظمیٰ کا پرویز مشرف سے رویہ نرم ہوتا جیسا کہ چوہدری نثار نے ظاہر کرنے کی کوشش کی تو وہ دو ہفتے قبل 26؍ فروری 2016ء کو کبھی واضح فیصلہ جاری نہیں کرسکتی تھی۔
تازہ ترین