• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الطاف حسین کا باہر جانا غلطی تھی، انہیں فوراً واپس آنا چاہئے، تجزیہ کار

کراچی (جنگ نیوز) سینئر تجزیہ کاروں حفیظ اللہ نیازی ، افتخار احمد ،بابر ستار،سلیم صافی ،مظہر عباس نے کہا ہے کہ الطاف حسین کا باہر جانا غلطی تھی انہیں فوراً واپس آنا چاہئے،جہاں پارٹی ٹوٹ رہی ہو ایسی صورتحال میں لیڈر آکر الزامات کا سامنا کرتے ہیں، پاک بھارت جامع مذاکرات کی راہ امریکا ہموار کر رہا ہے،بھارت سے مذاکرات پٹھانکوٹ کے ساتھ جڑے ہیں ۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام " رپورٹ کارڈ " میں بات چیت کر رہے تھے ۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی وطن واپسی کے حوالے سے سوال پر افتخار احمدکا کہنا تھا کہ الطاف حسین کو پاکستان واپس آنا چاہئے ، مگر اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ الطاف حسین اگر پاکستان آتے ہیں تو ان کی زندگی کو خطرہ نہیں ہو گا ؟ ۔تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پارٹی ٹوٹ رہی ہو تو ایسی صورتحال میں لیڈر آکر الزامات کا سامنا کرتے ہیں دیکھئے زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ، بے نظیر بھٹو کو بھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا تھا بے نظیر بھٹو واپس آئیں ، دھماکے بھی ہوئے اس کے بعد وہ واپس نہیں گئیں انھوں نے مقابلہ کیا ، وہ شہید ہوئیں ۔الطاف حسین کو آناچاہئے اور میری خیال میں انھیں جانا ہی نہیں چاہئے تھا ، یہ ایم کیو ایم اور لطاف حسین کی بنیادی سیاسی غلطی تھی کہ وہ مستقل چلے گئے جس کا بڑا نقصان ہوتا ہے پارٹی ضرور چلی لیکن الطاف حسین اپنے گراؤنڈ اور ورکر سے کٹ گئے اس لئے انھیں بالکل آنا چاہئے اور یہ سال ایم کیو ایم کے لئے تخت یا تختہ کا سال ہے لیکن ایک ایسے دوراہے پر جہاں پارٹی ٹوٹ رہی ہو ایسی صورتحال میں لیڈر آکر الزامات کا سامنا کرتے ہیں چاہے وہ " را "کا الزام ہو یا دہشت گردی کا ، اس لئے الطاف حسین و بالکل پاکستان آنا چاہئے ۔مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کا کسی اور جماعت کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے ان کا جو بھی تجربہ ہے وہ ایم کیو ایم کا تجربہ ہی ہے۔وہ اپنی سیاسی جماعت کا ڈھانچہ ایم کیو ایم کی طرز پر بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ الطاف حسین کو آنا چاہئے ان کا اپنا ملک ہے نہ ان کی شہریت کسی نے منسوخ کی ہے نہ وہ نواز شریف کی طرح کوئی حلف نامہ دے کر کسی ڈیل کے تحت پانچ یا دس سال کے لئے باہرگئے ہوئے ہیں ، اپنی مرضی سے وہ گئے ہیں اور اپنی مرضی انھیں واپس آنا چاہئے۔ اس دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی کہا کہ الطاف حسین کو اس بحران میں پاکستان میں موجود ہونا چاہئے تھا وہ بالکل نہیں آئیں گے انھوں نے بلٹ اور بیلٹ کا بڑا موثر استعمال کیا ۔تجزیہ کار بابر ستار کا کہنا تھاکہ میرا نہیں خیال کہ الطاف حسین کو پاکستان آنا چاہئے اور میرا مفت مشورہ ہو گا الطاف بھائی کو کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں اور اپنی مشکلات میں اضافہ نہ کریں ۔انھیں جانا نہیں چاہئے تھا ۔ان کا طرز سیاست پارٹی کو ریموٹ کنٹرول سے چلانے کا ہے۔ ان کا وہ سیاست کرنے کا تجربہ نہیں ہے جو باقی رہنماء کرتے ہیں ۔جس طرح عمران خان یا نواز شریف جا کر جلسوں میں کرتے ہیں پھر ان پر بے تحاشا الزامات ہیں, جب وہ واپس آئیں گے تو ان کی صحت کو تو چھوڑیں ان کے قانونی مسائل ہوں گے ۔پارٹی آدھا وقت ان کی سیکیورٹی کے بارے میں پریشان رہے گی اور آدھا وقت ان کی قانونی جنگیں لڑتی رہے گی ۔مجھے نہیں لگتا کہ پارٹی کے بحران کا علاج ان کا واپس آنا ہے ان کی کامیابی باہر سے بیٹھ کر سیاست کرنا ہے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں نیپال میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی ملاقات کے حوالے سے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کی راہ ہموار کرنا یا اس پر دونوں ممالک کو آمادہ کرنے کی ڈیوٹی آج کل امریکا کر رہا ہے ، یہ آج تک سرتاج عزیز یا کسی اور کی کوششوں سے آج تک نہیں ہوا میرے خیال میں امریکا کا مقصد اور مدعا یہی ہے کہ زیادہ تناؤ نہ ہو اور مذاکرات شروع ہو جائیں جو شروع ہو جائیں گے لیکن ان کا کسی نتیجے تک پہنچنے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ گذشتہ دنوں ہمارا بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی کوئی ایسا موڈ نہیں ہے کہ پاکستان کے ساتھ مسائل حل کر لئے جائیں اور پاکستان میں بھی سرتاج عزیز یا نیشنل سیکیورٹی ایڈوائز ر کا آنا جا نا ہو رہا ہے لیکن جب سے بھارت کے ساتھ یہ معاملہ شروع ہوا آج تک وزیر اعظم نے متعلقہ اداروں کا مثلاء جو کیبت کمیٹی آن نیشنل سیکورٹی ہے اس کا اجلاس ہی نہیں بلایا ہے اور نہ اس معاملے پر کابینہ سے صلاح مشورہ کیا ہے کہ کوئی روڈ میپ تیار کرے کہ انڈیا کو ہم کیا آفر کر سکتے ہیں اور اس سے ہمیں کیا ڈیمانڈ کر نا چاہئے؟ کہاں تک بات جا سکتی ہے؟آج مجھے پتہ چل گیا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کابینہ کا اجلاس کیوں نہیں بلا رہے ہیں مجھے کسی نے بتایا ہے کہ انھیں ڈر ہے میں نے کابینہ کا اجلاس بلا لیا تو ادھر ایک جانب احسن اقبال صاحب استعفٰی پیش کر دیں گے ، اس میں خطرہ ہے کہ خواجہ آصف کہہ دیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے وہ مشرف تو باہر چلا گیا آپ نے اس کو باہر بھیج دیا ، کہیں خواجہ سعد رفیق ادھر سے یہ نہ کہہ دیں کہ " وزیر اعظم صاحب مرد بنو مرد"اور یہ بھی انھیں ڈر ہے کہ عرفان صدیقی اٹھ کر مشرف کے خلاف وہ کالم جو انھوں نے لکھے تھے انھیں پڑھ دیں اس خوف سے کابینہ کا اجلاس نہیں ہو رہا ۔دوسری جانب بھارتی حکومت ، سیاستدانوں اور میڈیا میں ایک عجیب سا احساس برتری آگیا ہے لیکن بھارت کے ساتھ تنازعات کا مجھے کوئی حل ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ اس پر مظہر عباس نے کہا کہ جامع مذاکرات کی راہ ہموار نہیں ہو گی کیوں کہ یہ سب پٹھانکوٹ واقعے کی انکوائری کے نتیجے پر منحصر کرتا ہے ۔کوششیں بہت ہو رہی ہے Back Door Diplomacyبھی ہو رہی ہے اور اس حد تک ہو رہی ہے کہ میڈیا کو خبریں لیک نہیں ہوتیں اور یہ مذاکرات بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔اس ماہ کے آخر میں نواز مودی ملاقات بھی ہوگی اور یہ بھی امکان ہے کہ مودی سارک کانفرنس میں آئیں ۔اس کے باوجود جامع مذاکرات جہاں ختم ہوئے تھے اس کے بعد شروع نہیں ہو سکے ۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات اگر مگر میں چلتے رہیں گے ۔بھارتی میڈیا کا رویہ بھی سخت نظر آتا ہے ۔ساری صورتحال کو اگر دیکھیں تو مجھے نہیں لگتا کہ اس مذاکرات کی روشنی میں کوئی مذاکرات شروع ہوں گے۔ اس دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ مذاکرات دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ جب تک کشمیر کے حوالے سے کچھ واضح نہیں کرتی تو یہ مذاکرات کا سلسلہ جتنے عرصے سے جاری ہے اتنے سال مزید جاری رہ سکتا ہے ۔ دونوں اطراف میں سے کوئی بھی اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ، پرویز مشرف کے فارمولے کو زیر بحث نہیں لایا جاتا اور سنجیدگی سے اس کی حمایت یا مخالفت میں دونوں ممالک میں بحث نہیں ہوتی کوئی بھی مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے۔میں سلیم صافی کی بات سے اتفاق کروں گا کہ کیوں کہ یہBack Door مذاکرات میں ملوث رہا ہے اور ہے اس کو بہتر پتہ ہے کہ وہاں پر ہندوستان ، اس کے لوگوں اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ کیا ہے ؟ اصل میں یہ دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کے روئے پر منحصر ہے کہوہ کیا کرتے ہیں؟اور اس کے لئے جو میں نے دیکھا ایک شملہ کا معائدہ اور پرویز مشرف نے جو چار طریقہ کار دئے یہ دو ایسے نقطے ہیں جن پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ممکن ہے کوئی راستہ نکل آئے دوسری صورت میں میں نہیں سمجھتا کہ کویہ چانس ہے اور اس دفعہ میڈیا کے بہت سے لوگ Back Door Diplomacy میں شامل ہیں اور وہ بڑی باقائدگی سے غیر ملکی دورے کر رہے ہیں۔ اس دوران افتخار احمد کی بات کی وضاحت کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ Back Door Diplomacy سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہوBack Door سے عموماُ جو مراد لی جاتی ہے وہ پرویز مشرف صاحب کے لئے کر رہے تھے طارق عزیز وغیرہ ۔ سلیم صافی کا کہنا تھاکہ اس وقت جو ایک back door channel ہے نواز شریف کا ایک تو وہ کاروباری لوگوں کا ہے وہ جو آئے بھی تھے جن کے ساتھ ان کی پارٹنر شپ ہوئی تھی جندال وغیرہ دوسرا تاثر یہ ہے کہ شہریار خان کو پی سی بی کا چیئرمین اس لئے رکھا گیا ہے کہ شاید ان کے ذریعے موجودہ سیاسی لیڈر شپ کوئی بیک ڈور مذاکرات کر رہی ہے ۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ جامع مذاکرات کی جانب بڑھنا یا نہ بڑھنا پٹھانکوٹ کے ساتھ جڑا ہے ۔اس بار فرق یہ ہے کہ سرعام شرائط نہیں رکھیں گئیں ۔جس طرح ممبئی حملوں کے بات شرائط رکھیں گئی تھیں کہ جب تک آپ اسے نہیں مانیں گے ہم بات آگے لے کر نہیں چلیں گے۔جامع مذاکرات ہونا تھے لیکن پٹھانکوٹ واقعہ ہوگیا جس کے بعد دونوں حکومتیں کہہ رہی ہیں کہ ہاں جامع مذاکرات ہوں گے لیکن اس کی جانب بات آگے بڑھ نہیں رہی۔جب تک غیر ریاستی عناصر اور دہشت گردی والا مسئلہ حل نہیں ہوتا بھارت ہمارے ساتھ جامع مذاکرات کو آگے نہیں بڑھائے گا ۔ہماری حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر وہ ڈلیور نہیں کر سکتے یہ ڈلیور فوج نے کرنا ہے کیوں کہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی انچار ج فوج ہے۔ اس سوال پر آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ سرتاج عزیز اور سشما سوراج کی ملاقات کے بارے میں قیاس ہے کہ ملاقات میں پٹھانکوٹ کے بارے میں ہی بات ہوئی ہے۔مجھے انتہائی تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس دو ڈھائی سو منتخب نمائندے ہیں اور ان میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو آپ کی وزارت خارجہ کو چلا سکے ۔بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دودل کی خارجہ پالیسی میں بہت سنی جاتی ہے ۔میرے نزدیک یہ مذاکرات نہیں ہیں اور اگر ہوں بھی تو میرے نزدیک نہیں کے برابر ہیں۔
تازہ ترین