عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام آج دُنیا بَھر میں ’’ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے‘‘ منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس عارضے سے متعلق شعور و آگاہی عام کرنا ہے۔ یہ یوم پہلی بار 2011ءمیں جولائی کی28تاریخ کو منایا گیااور اس کے بعدسے لے کر تاحال موقع محل کی مناسبت سےکوئی تھیم یاسلوگن منتخب کرکے اِسی تاریخ کومنایا جاتا ہے۔ امسال کا تھیم "Invest In Eliminating Hepatitis"ہے، جب کہ سلوگن گزشتہ برس ہی کا"Find The Missing Millions" دہرایا گیا ہے۔ یاد رہے، عالمی ادارۂ صحت کے اہداف میں 2030ء تک ہیپاٹائٹس کا خاتمہ بھی شامل ہے اور مذکورہ تھیم اور سلوگن منتخب کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دُنیا بَھرمیں اس خطرناک مرض کے خاتمےکے لیے باقاعدہ طور پر سرمایہ کاری کی جائے۔نیز، ہر مُلک اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مرض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کرنے کے ساتھ، اسکریننگ کے ذریعے نئے کیسز تشخیص کرکے مریضوں کو سستا اور مؤثر علاج بھی فراہم کرے۔
ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں وائرل ہیپاٹائٹس کے شکار تقریباً 300ملین افراد اپنے مرض سے لاعلم ہیں۔یعنی ہر10میں سے 9 افراداپنے مرض سے آگاہ نہیں اور یہی وہ افراد ہیں، جو مرض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ مختلف مُمالک میں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں اور کیرئیرز کی تعداد کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن کوئی مُلک ایسا نہیں، جہاں اس سے متاثرہ افراد نہ پائے جاتے ہوں۔ البتہ تیسری دُنیا کےمُمالک میں ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای کی شرح بُلند ہے۔ہیپاٹائٹس اصل میں جگر کا مرض ہے، جس کے لاحق ہونے کا سبب ایک خاص قسم کا وائرس ہے۔ طبّی اعتبار سے ہیپاٹائٹس کو کئی اقسام میں منقسم کیا گیا ہے، لیکن سب سے عام پانچ اقسام اے،بی،سی ،ڈی اور ای ہیں۔ ہر ایک قسم مختلف وائرسز کو ظاہر کرتی ہے۔علاوہ ازیں کئی دیگر وائرسز بھی ہیں، جو جگر پر حملہ آور ہوکر اسے متاثر کرسکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی خواہ کوئی بھی قسم ہو، اس کا وائرس جب جسم کے اندرداخل ہوتا ہے، تو افزایش کا عمل شروع کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں جسم کا مدافعتی نظام کم زور پڑنے لگتا ہے۔ فی الوقت ہیپاٹائٹس کی صرف دو اقسام اے اور بی سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے متعارف کروائے جاسکے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کی ویکسین تو اب ہر جگہ باآسانی دستیاب ہے، جب کہ ہیپاٹائٹس اے کا حفاظتی ٹیکا میسّر ہونے کے باوجود استعمال نہیں کیا جاتا کہ ہیپاٹائٹس اے موذی نہیں اور ہمارے مُلک میں بےحد عام بھی ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو، جسے زندگی میں کبھی ہیپاٹائٹس اے لاحق نہ ہوا ہو۔ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور فرد کے متاثر ہونے کی صُورت میں عمومی طور پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں بھوک کم لگنا، منہ کا ذائقہ بدل جانا، تھکاوٹ، کم زوری، درد، گھبراہٹ اور بخار کے ساتھ یرقان ہونا شامل ہیں۔ اس سے متاثرہ افراد دو سے چھے ہفتوں کے اندر بغیر کسی علاج کے بھی صحت یاب ہو جاتے ہیں، جب کہ زیادہ تر سادہ لوح افراد اس دوران جو مختلف ٹونے ٹوٹکے (خصوصاً پیلیا جھاڑنا) آزماتے ہیں، تو اُنہیں ہی علاج یا دوا سمجھتے ہیں، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں۔ اور بدقسمتی سے ایسے ہی فرسودہ خیالات کے سبب ہیپاٹائٹس بی، سی، ڈی اور ای کے شکار مریض بھی وہ وقت، جب مرض قابلِ علاج ہوتا ہے، ان ہی جاہلانہ نسخوں میں ضایع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً زیادہ تر کیسز میں کوئی نہ کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ ماہرین، ہیپاٹائٹس اے کا مؤثر علاج بہتر و متوازن غذا اور پرہیز کو قرار دیتے ہیں۔ دوسری وائرل قسم ہیپاٹائٹس ای ہے، جسے ’’حاملہ کا قاتل مرض‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق 20فی صد حاملہ خواتین کی موت کا سبب ہیپاٹائٹس ای ہے۔ یہ وائرس بھی منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر پیشاب اور فضلے کے ذریعے خارج ہوتا ہے اور ہیپاٹائٹس اے ہی کی طرح جگر کو وقتی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ابتدا میں شدید یرقان ہوتا ہے، مگر مؤثر علاج کی بدولت چھے ماہ کے عرصے میں مریض مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای لاحق ہونے کی بنیادی وجوہ میں سرِ فہرست آلودہ پانی اور غیر معیاری غذاؤں کا استعمال ہے۔
ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی کے وائرسز منہ کے ذریعے جسم میں داخل نہیں ہوتے، بلکہ یہ جسمانی رطوبت، تھوک اور خون میں پائے جاتے ہیں اور اُن باریک زخموں کے ذریعے کسی تن درست فرد میں داخل ہو کر اسے اپنا شکار بنا لیتے ہیں، جو عموماً نظر بھی نہیں آتے۔ مثلاً متاثرہ مریضوں کی جِلد کٹنے پھٹنے کی صُورت میں یہ وائرسز کسی دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتے ہیں، تو کبھی غیر مطہر آلات، زائد بار ایک ہی سرنج کا استعمال، انتقال خون، جِلد پر نقش و نگار، استعمال شدہ ریزرز، کان، ناک چھدوانا یا جنسی بے راہ روی بھی منتقلیٔ مرض کی وجہ بن جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک فریق ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثر ہو، تو دوسرا بھی مبتلا ہوسکتا ہے، البتہ ہیپاٹائٹس ڈی سے، جو ہیپاٹائٹس ڈیلٹا (Hepatitis Delta) بھی کہلاتا ہے، صرف وہی مریض متاثر ہوتے ہیں، جنہیں ہیپاٹائٹس بی لاحق ہو۔ اگر ہیپاٹائٹس بی یا سی کا وائرس ایک بار جسم میں داخل ہوجائے، تو ضروری نہیں کہ فوراً ہی اُسے اپنا شکار بنالے۔ پہلے جسم کا دفاعی نظام اس وائرس کا بَھرپور مقابلہ کرتا ہے۔ چوں کہ ہیپاٹائٹس کا مرض یک دَم حملہ آور نہیں ہوتا، تو جگر کے عوارض کا ماہر معالج عموماً ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھ کر ہی مرض کے لیول کی مناسبت سے دوا اور اس کی مقدار تجویز کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ہیپاٹائٹس کے علاج میں اس کے وائرس کی تعداد کا تعین بےحد ضروری ہے۔ عام طور پرہیپاٹائٹس بی، سی یا ڈی سے متاثرہ افراد معمولی نوعیت کےیرقان، نقاہت اور پیٹ درد جیسی علامات ہی کے ساتھ کسی اتائی یا نیم حکیم سے رجوع کرتے ہیں اور چوں کہ یہ علامات شدید نوعیت کی نہیں ہوتیں، تو کوئی خاص توجّہ بھی نہیں دی جاتی۔ ہاں مگر ایک عرصے بعد جب مریض ان اتائیوں سے اُکتا جائیں، تو پھر کسی ماہرِ امراضِ جگر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ دَورِ جدید میں اب ہیپاٹائٹس بی اور سی دونوں ہی کا علاج دستیاب ہے، البتہ اگر ہیپاٹائٹس بی کے ساتھ ڈی بھی لاحق ہو، تو اس کا علاج ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس سی کی بھی اب تقریباً چھے سے سات اقسام ہیں، جنہیں سی وَن، سی ٹو ، سی تھری، سی فور، سی فائیو اور سی سِکس وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان تمام اقسام کے علاج کے لیے مختلف ادویہ مستعمل ہیں۔ نیز، تقریباً ہر مُلک ہی میں ہیپاٹائٹس سی کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ رہی بات ہیپاٹائٹس بی کی، تو اس کی بھی متعدد اقسام ہیں، لیکن ان سب کے علاج کے لیے ایک ہی جیسی ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ جس طرح ہیپاٹائٹس ای حاملہ کا قاتل مرض ہے، بالکل ایسے ہی ہیپاٹائٹس بی’’ بچّوں کا قاتل‘‘ مرض کہلاتا ہے ۔کیوں کہ جو حاملہ ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہو، وہ بچّوں میں بھی یہ مرض منتقل کرسکتی ہے ۔چوں کہ ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی کی نسبت زیادہ خطرناک ہونے کے ساتھ نومولود میں بھی منتقل ہوسکتا ہے، اس لیے دُنیا بَھر میں حاملہ کا ہیپاٹائٹس بی کا ٹیسٹ لازماً کیا جاتا ہے، تاکہ بروقت تشخیص ہوسکے۔ اگر خدانخواستہ کسی حاملہ میں ہیپاٹائٹس بی تشخیص ہو جائے، تو پھر پیدایش کے پہلے ہفتے میں نومولود کی ویکسین کی جاتی ہے اور کم عُمری ہی میں اسے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی مکمل کروا دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ ہمارے مُلک کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ دیہی علاقوں میں رہایش پذیر ہے، جہاں نہ تو حاملہ کے ٹیسٹ کروائے جانے پر زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی محفوظ طریقے سے زچگی کا عمل انجام پاتا ہے، تو یوں متاثرہ ماں جو خود بھی اپنے مرض سے لاعلم ہوتی ہے، بچّے میں مرض منتقل کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ نیز، چوں کہ پچھلی ایک دو دہائیوں سے حاملہ خواتین میں آپریشن کے ذریعے زچگی کروانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، تو یہ آپریشنز بھی مرض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ کیوں کہ اگر آلاتِ جرّاحی اسٹرلائز نہ ہوں، تو بھی ہیپاٹائٹس بی اور سی لاحق ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ زچگی ہمیشہ کسی معیاری اسپتال ہی سے کروائی جائے۔
ہیپاٹائٹس سی کی عمومی طور پر کوئی واضح علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اکثر وبیش تر مریض کسی دوسری ہی وجہ سے خون ٹیسٹ کرواتے ہیں اور پھر اچانک ہی یہ مرض تشخیص ہوجاتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ تب تک مرض میں شدّت پیدا ہوچُکی ہوتی ہے۔مشاہدے میں ہے کہ اکثر اتائی یا نیم حکیم ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص کے لیے عمومی نوعیت کا ٹیسٹ "Anti HCV" تجویز کردیتے ہیں اور اسی ٹیسٹ کی بنیاد پرمرض بھی تشخیص کردیا جاتا ہے۔ حقیقتاً یہ ٹیسٹـ، دو باتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مریض کو کس وقت ہیپاٹائٹس سی ہوا تھا اور دوم، اب جسم میں اس کا وائرس موجود ہے یا ختم ہوچُکا ہے، کیوں کہ اگر ہیپاٹائٹس سی کا وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد فعال نہ ہو تو زیادہ تر کیسز میں خودبخود ختم ہوجاتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اتائی یا نیم حکیم تشخیص کے بعد علاج کا آغاز کرکے ہفتے دس دِن بعد دوبارہ یہی ٹیسٹ کرواتے ہیں۔مگر چوں کہ اس ٹیسٹ کی ریڈنگ ہر بار تبدیل ہوتی ہے۔ یعنی اگر ایک بارریڈنگ100ظاہر ہو، تو اگلی بار120یا پھر50بھی ہوسکتی ہے، تو اسی ریڈنگ کے کم یا زیادہ ہونے کی بنیاد پر مختلف حیلے بہانوں سےسادہ لوح مریضوں سے نہ صرف فیس اور ادویہ کے نام پر اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں، بلکہ ان کا مرض بھی پیچیدہ کردیا جاتا ہے۔ حالاں کہ جب یہی مریض کسی مستند معالج سے رجوع کرتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ انہیں تو یہ عارضہ لاحق ہی نہیں تھا یا پھر مرض خطرناک صُورت اختیار کر چُکا ہے، لہٰذا معمولی علامات کی صُورت میں بھی ہمیشہ اتائیوں کی بجائے کسی ماہرِ امراضِ جگر ہی سے علاج کروایا جائے، تاکہ صحت یابی کے امکانات بڑھنے کے ساتھ پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہا جاسکے۔ مشاہدے میں ہے کہ خون کا عطیہ کرنے والے کسی شخص کو جب اچانک یہ پتا چلتا ہے کہ اسے ہیپاٹائٹس بی یا سی لاحق ہے، تو وہ کسی صُورت یہ حقیقت تسلیم نہیں کرتا۔ تسلی کے لیے دوسری لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، حالاں کہ ایک سے دوسرے معالج اور لیبارٹری کے چکروں میں صرف پیسے ہی خرچ ہوتے ہیں، نتیجہ وہی رہتا ہے، جو پہلے تشخیص ہو چُکا ہو، لہٰذا وقت ضایع کرنے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ فوری علاج کروانے پر دھیان دیا جائے۔
علاج کے حوالے سے بات کی جائے، توآج سے تقریباً 10سال قبل ہیپاٹائٹس سی کا علاج انجیکشنز کے ذریعے کیا جاتا تھا، تب ایک ماہ تک لگائے جانے والے انجیکشنز کی قیمت13000 روپے تھی۔ نیز، ان انجیکشنز کے ضمنی اثرات بھی ظاہر ہوتے تھے، جو تاحال لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ اگرچہ یہ طریقۂ علاج کسی حد تک کام یاب تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن جب مرض کے وائرس نے ان انجیکشنز کے خلاف مزاحمت اختیارکرلی،جس کے نتیجے میںمریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور مغربی مُمالک بھی اس کی لپیٹ میں آگئےتو مختلف تحقیقات کے بعدادویہ کا طریقۂ علاج متعارف کروایا گیا، جو 95فی صد تک کام یاب ثابت ہوا۔
ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی جگر کو شدید نقصان پہنچانے سمیت اس کے افعال میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔جگر کے افعال میں رکاوٹ کو طبّی اصطلاح میں ’’Fibrosis‘‘ یعنی ریشہ کہا جاتا ہے۔یہ ریشے مرحلہ وار جگر کے افعال متاثر کرتے ہیں۔ فیبروسز کے چار مراحل ہیں ،جن میں آخری مرحلہ "Cirrhosis"ہے، جس کی علامات میں عموماً نقاہت، پیٹ میں پانی بَھرجانا، پیٹ کا پھولنا، ہر وقت کم زوری کی شکایت، پیروں پر سُوجن اورشدید یرقان وغیرہ شامل ہیں۔ آخری مرحلے میں چوں کہ مریض کے جگرپر خون کا دبائو بہت بڑھ جاتا ہے، تو جگر اپنا خون تلی کی جانب بھیجتا ہے یا پھر کھانے کی نالی میں موجود رگوں کو پُھلا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں آنتوں اور مقعد کی رگیں اس کا نشانہ بنتی ہیں اور وقفے وقفے سے ان جگہوں سے خون رِسنا شروع ہوجاتا ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جگر خود کبھی خون نہیں بناتا، بلکہ خون ہڈیوں کے گُودے سے مل کر بنتا ہے۔ پتا نہیں کیوں ہمارے یہاں یہ تصوّر بہت عام ہے کہ جگر کا کام خون بنانا ہے۔ یاد رکھیے، شعبۂ طب میں جگر کی اہمیت اور افعال کے اعتبار سے اس کا شمار اعضائے رئیسہ (دماغ، پھیپھڑے، دِل اور جگر)میں چوتھے نمبر پر کیا جاتا ہے،کیوں کہ یہ غذا ذخیرہ کرتا ہے اور اسے ری فائن کرکے جسم کے قابل بناتا ہے، تو آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جگر جسم کی ایسی فیکٹری اور گودام ہے، جہاں غذا کو ترتیب دے کر اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ جسم کے لیے اکسیر ثابت ہو۔ اگر اس کے افعال میں معمولی سی بھی گڑ بڑ واقع ہوجائے، تو اسی اعتبار سے جگر کا کوئی عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نیم حکیموں، اتائیوں نے جگر سے متعلق اَن گنت غلط، بے بنیاد تصوّرات، توہمات کو فروغ دیا ہوا ہے، جن کا خمیازہ مریضوں ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ خدارا! اپنے ذہنوں سے ہیپاٹائٹس کا خوف نکال دیں کہ اب یہ قابلِ علاج مرض ہے، بشرط یہ کہ بروقت تشخیص ہوجائے۔ نیز، وہ قیمتی وقت، جس میں علاج کرنا سہل ہے، وہ اتائیوں، نیم حکیموں اور ٹونے ٹوٹکے آزمانے میں ضایع نہ کریں۔ اس مرض سے نجات کے لیے انفرادی ہی نہیں، اجتماعی کاوشیں بھی ناگزیر ہیں۔
ہیپاٹائٹس سے بچائو کے لیے سب سے ضروری اقدام صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا ہے۔ نیز، ہر فرد اپنی اسکریننگ بھی لازماً کروائے۔ اگر یہ وائرس خون میں موجود نہ ہو، تو بھی ویکسین ضرور کروائی جائے، تاکہ اس خطرناک بیماری سے بچا جاسکے۔ علاوہ ازیں، کسی بھی قسم کا انجیکشن لگوانے کی صُورت میں یہ تسلی کرلیں کہ سرنج بالکل نئی ہو۔ شیو یا حجامت بنواتے وقت ہمیشہ نئے بلیڈ کے استعمال پر زور دیں کہ جسم پر جو آلات استعمال ہوں، اُن کا سو فی صد جراثیم سے پاک ہونا ضروری ہے۔ دوسروں کی استعمال شدہ اشیاء، جن پر خون لگنے کا اندیشہ ہو مثلاً مسواک، ٹوتھ برش، سیفٹیز، بلیڈ، نیل کٹرز وغیرہ ہرگز استعمال نہ کریں اور نہ ہی اپنی چیزیں دوسروں کو استعمال کے لیے دیں۔ بازاری اشیاء کھانے پینے سے پرہیز کریں،خون کے انتقال سے پہلے خون کے ضروری ٹیسٹ ضرور کروائیں،معمولی سی بھی جرّاحی، کسی سندیافتہ معالج ہی سے کروائی جائے۔ بے راہ روی سے قطعاً دور رہیں۔یاد رکھیے، ہیپاٹائٹس کے خلاف جنگ صرف اُسی صُورت جیتی جا سکتی ہے، جب عوام میں مرض سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگہی پیدا ہو اور پھیلائو کا سدِّباب کرنے کے ساتھ وسیع پیمانے پر اسکریننگ کا بھی انتظام کیا جائے۔
(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)