• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: سحر شاہ، زاشاشاہ، سیمیں، علیشاخان

منہدی اینڈ میک اَپ: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

’’سوشل میڈیا‘‘(سماجی ذرائع ابلاغ)نے اور تو جو ظلم ڈھائے، سو ڈھائے ہیں، خاص طور پر اُردو شعرو نثر کا تو وہ حال کر دیا ہے کہ اب خال ہی کوئی اقتباس درست حوالے کے ساتھ، کوئی شعر، غزل وزن میں اور اپنےاصل شاعر کے نام کے ساتھ مل پاتی ہے۔ ’’فراز‘‘ کا نام و تخلّص تو گویا ’’گھر کی کھیتی‘‘، ’’گھر کی بات‘‘ ہوگئی ہے۔ جس کا جہاں دل چاہتا ہے، جیسے مرضی فِٹ کر لیتا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ ایسے ایسے بےسروپا، اوٹ پٹانگ اشعار کےدرمیان بھی ’’فراز‘‘ کو ڈال دیا گیا کہ اگر وہ خود زندہ ہوتے، تو یقیناً لکھنے والے پر مقدمہ کردیتے۔ مثلاً ؎ محبّت میں دل توڑنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے فراز…آپ کا مطلوبہ نمبر دوسری لائن پر مصروف ہے۔ یا ؎ دھڑکن رُک گئی میری یہ سُن کر فراز… جب لائٹ گئی، تو کام کرنے والی نے کہا ’’واٹ دی ہَیل اِز دس‘‘۔

 اور ؎ محمود و ایاز نے اکٹھے پڑھی نماز…اور تُو جوتے اُٹھا کر بھاگ آیا فراز۔ اب بھلا بتائیں، جب اس سطح کےاشعار زبانِ زدِ عام ہوں تو کوئی شعر و ادب کی بات کرے تو کہاں کرے، کس سے کرے۔ خیر قصّہ مختصر، اس دَورِ ابتلا میں بھی آپ، ہم جیسے کچھ لوگوں کے لیے ’’www.rekhta.org‘‘ جیسی ایک شان دار، شاہ کار ویب سائٹ دست یاب ہے کہ جو حقیقتاً اردو شعرو ادب کی بہترین خدمت انجام دے رہی ہے۔ دنیا کے کسی موضوع پر اردو نثر، شاعری، ای کتاب سے کوئی مستند و معتبر حوالہ درکار ہو، ’’ریختہ‘‘ سے رجوع کرلیں۔ جیسے ہم نے لفظ ’’منہدی‘‘ ’’حنا‘‘سرچ کیا تو ’’حناشاعری‘‘ اس مختصر اقتباس کے ساتھ سامنے آگئی۔

’’عشق کلاسیکی شاعری کا مرکزی موضوع رہا ہے اور معشوق مرکزی کردار، اسی لیے ایسی تمام باتوں کوشاعری کاموضوع بنایا گیا ہے، جو معشوق سے تعلق رکھتی ہیں۔ شعراء نے منہدی، اُس کے رنگ اور اس کے ذریعے معشوق کے حُسن میں ہونے والے اضافے کو طرح طرح سے برتا ہے۔ اس ضمن میں ایک دل چسپ جہت کا بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ منہدی سے سُرخ سُرخ ہاتھوں کو عاشق کے خون سے رنگے ہاتھوں سےتعبیرکرناہے۔ ویسے منہدی کے موضوع پر کی جانے والی شاعری کے اور بھی کئی مزے دار پہلو ہیں۔‘‘ نیز، اس اقتباس کے بعد پھرمتعددخُوب صُورت، متنوّع اشعار کا ایک انتخاب بھی موجود ہے۔ 

ہماری آج کی بزم خواتین کے ’’سولہ سنگھار‘‘ کے ایک جزوِ لازم ’’منہدی رَچے گی تیرے ہاتھ‘‘ کے ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن سے کچھ اس طور شعلۂ جوّالا بنی ہوئی ہے کہ نگاہ ٹھہرنا بھی مشکل ہے، تو نگاہ ہٹانا بھی۔ سال کا پانچواں موسم(شادی بیاہ سیزن) جوبن پر ہے، تو عید الاضحیٰ کی بھی آمد آمد ہے۔ آپ سرتاپا مرقّع حُسن نظر آنا چاہتی ہیں، اپنے ہاتھوں پیروں کو بہت ہی حسین و دل نشین رنگ میں رنگا، بےحد دل آویز، مدھر مہک میں رَچا بسا دیکھنے کی خواہش مند ہیں، تو بے دھڑک، بے جھجک اس بزم سے استفادہ کریں کہ آپ کو یہاں عربی، سوڈانی، عبرانی، بنگلا، موراکن، انڈین، پاکستانی سب ہی کے مخصوص رنگ و انداز کی جھلک یک جا دِکھائی دے گی۔ ذرا دیکھیے تو ؎ کیا شوخ ہے رنگ اس حنا کا۔

کسی سکھی سہیلی کی شادی میں شرکت کا پروگرام ہے یا اس بار عید پر، ہر بار سے کچھ زیادہ ہی سُندر، پیاری نظر آنے کا ارادہ ہے، تو بس، یہ سیج آپ ہی کے لیے سَجی ہے۔ اور یہ سب اشعار بھی آپ ہی کے نام ہیں۔ ؎ منہدی لگانے کا جو خیال آیا آپ کو…سوکھے ہوئے درخت حنا کے ہرے ہوئے۔ ؎ اللہ رے نازکی کہ جوابِ سلام میں…ہاتھ اُس کا اُٹھ کے رہ گیا منہدی کے بوجھ سے۔ ؎ آج منہدی لگائے بیٹھے ہیں…خُوب وہ رنگ لائے بیٹھے ہیں۔ ؎ ہم بھی بدل گئے تری طرزِ ادا کے ساتھ ساتھ… رنگِ حنا کے ساتھ ساتھ، شوخیٔ پا کے ساتھ ساتھ… نکہت زلف لے اُڑی، مثل خیال چل پڑی… 

چلتا ہے کون دیکھیے ،آج حنا کے ساتھ ساتھ۔ ؎ دل پِسا جاتا ہے جا کے حنا پر ُاس کی…خرمنِ حُسن ہوا چاہتا ہے دانۂ عشق۔ ؎ زلف کو دستِ حنائی سے جو چُھوتا ہے وہ شوخ… تو گرفتار وہیں دردِ حنا ہوتا ہے۔ ؎ یہ کون آگئی دل رُبا مہکی مہکی… فضا مہکی مہکی، ہوا مہکی مہکی… وہ آنکھوں میں کاجل، وہ بالوں میں گجرا… ہتھیلی پہ اُس کے حنا مہکی مہکی… اور ؎ خموشیوں میں صدا سے لکھا ہوا اِک نام… سُنو، ہے دستِ دعا سے لکھا ہوا اِک نام… کبھی کبھی تو برستے ہوئے بھی دیکھا ہے… فلک پہ کالی گھٹا سے لکھا ہوا اِک نام… کبھی کُھلیں گی اگر مُٹھیاں تو دیکھیں گے…ہتھیلیوں پہ حنا سے لکھا ہوا اِک نام۔

تازہ ترین
تازہ ترین