• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماں،بیٹی ،بیوی اور بہن ،عورت کا ہر کردار خوبصورت ،ہر روپ بہترین کہیں محبتوں میں جکڑی،تو کہیں قربانیوں کا پیکر ،کہیں غمگسارتو کہیں الفت ،محبت اور چاہت کی جیتی جاگتی تصویر۔۔ معاشرے کی تعمیر میں عورت کے کردار پر مختلف پروگرامز منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ان کا عالمی دن منا کر ان کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔ٹی وی پراسپیشل پروگرامز کیے جاتے ہیں ۔لیکن ان سب کے باوجود ہمارے معاشرے میں خواتین استحصال کا شکار ہیں ۔ویسے تو پوری دنیا میں عورت مختلف نوعیت کے مسائل سے دوچار ہے، مگر پاکستان میں خواتین کچھ زیادہ ہی جبر اور امتیازی سلوک سے دوچار ہیں۔ مثلاً : روزگار کے مواقع نہ ہونااور اگر ہیں بھی تو ان کو حاصل کرنے کے لیے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،کم اجرت،بلامعاوضہ کام ،ہراساں کرنا ،سیاسی عمل میں رکاوٹیں، معاشرتی تعصب ،تشدد، رسم ورواج کی پابندیاں ،غیرت کے نام پر قتل ،اغوا ء، تعلیم کے حصول اور کھیلوں میں شمولیت میں رکاوٹ یہ وہ تمام مسائل ہیں جن سے ہماری خواتین دوچار ہیں۔ کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی میںسانس لے رہےہیں لیکن خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں اور یہ صورت حال اُس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے مساوی سہولتیں فراہم نہ کی جائیں ۔ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف اداروں میں خواتین کا کوٹہ مقرر کرنے سے ان کا حق ادا کردیا ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ عورتوں کو درپیش تمام سیاسی ،سماجی اور معاشی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔اس کے ساتھ ساتھ شعوری طور پر بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔جن علاقوں میں سیاست میں خواتین کی شرح کم ہے، وہاں خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ خواتین کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے ۔ان کو قانونی حقوق کے حصول کے لیے سہولیتں فراہم کی جائیں۔ ان کے خلاف امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے اور ان کے حقوق کی آگاہی کا باقاعدہ نظام مرتب کیا جائے ۔ان قبائلی اور جاگیردارانہ رسوم و رواج کو ختم کیا جائے جو عورتوں پر جبر کا ذریعہ بنتے اور اُن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ،نیز خواتین کی شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور اس کے لیےبجٹ میں اضافہ کیا جائے۔عورتوں کے حقوق اور آزادی سے متعلق مواد کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ تعلیم کے جن شعبوں میں عورتوں کی شمولیت کم ہے وہاں مردوں کے مساوی لانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ ان فارمل سیکٹر میں عورتوں کی تنظیم سازی کو قانونی حیثیت دی جائے۔ زراعت اور صنعت میں کام کرنے والی عورتوں کے حالات کار کو صحت کے اصولوں کے مطابق یقینی بنایا جائے ۔ محنت کشوں کی تنظیموں میں عورتوں کی شمولیت ہر سطح پر مردوں کے مساوی ہو ، اس حوالے سے تنظیموں میں شعوری کوششیں کی جائیں۔ کام کی جگہ پر بچوں کی نگہداشت کے لیے مراکز قائم کیے جائیں، تاکہ ملازمت پیشہ عورتیں اپنا کام بہتر طریقے سے سرانجام دے سکیں ۔ موجودہ قوانین پر عملدرآمدکیا جائے اور ضرورت کے مطابق نئی قانون سازی کی جائے ،تاکہ عورتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ گھر سے کام کی جگہ تک ٹرانسپورٹ مفت فراہم کی جائے اور مردوں ، عورتوں کو مساوی اجرت دی جائے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جب تک عورتوں کے لیے کاموں میں حائل رکاوٹیں ختم نہیں کی جائیں گی، اس وقت تک معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ،کیوں کہ عورتیں ہی نسل کی پرورش کرتی ہیں،لہٰذا ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ خواتین کو ان کے تمام حقوق مہیا کیےجائیں اور ملک کی ترقی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا حق دیا جائے ۔

تازہ ترین