• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں28جولائی’’ہیپاٹائٹس سے آگہی کا عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو ہر سال ایک خاص عنوان (تھیم )سے منسوب کیا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام میں اس وائرل بیماری سے متعلق آگاہی میں اضافہ کرتے ہوئے اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں کمی لانا ہے۔ ہیپاٹائٹس ان چار خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے، جن سے متعلق عالمی طور پرآگاہی پیدا کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔ ’ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے‘ علاج معالجے کے اداروں، حکومتوں، طبی ماہرین، سول سوسائٹی، انڈسٹری اور عوام کو اکٹھا کرکے وائرل ہیپاٹائٹس کے خطرات سے آگہی پیدا کرنے کا کام کرتا ہے۔

ہیپاٹائٹس کیا ہے ؟

ہیپاٹائٹس کو اردو میں یرقان کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے جو انسان کےجگر کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے،بلکہ درحقیقت جگر میں انفیکشن کے باعث ہونے والی سوزش اور ورم کو ہی ہیپاٹائٹس کہتے ہیں۔ اس سوزش یا بیماری کی اہم وجہ خون میں ایک کیمیائی مادہ بلی روبین (Bilirubin) کی زیادتی ہوتی ہے۔ میڈیکل سائنس جگر کو انسانی جسم کا سب سے اہم عضو (عضوِ رئیسہ) اورغدود تصور کرتی ہےکیونکہ یہ وہی عضو ہے، جو جسم کے سب سے اہم کام انجام دیتا ہے اور اس عضو کے متاثر ہونے کا مطلب جسم کے اہم افعال کا متاثر ہوجانا ہوتا ہے ۔

ہیپاٹائٹس ڈے کی اہمیت

عالمی سطح پر بڑھتی شرح اموات کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ’’ہیپاٹائٹس‘‘ کو قرار دیا جاتاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال ہیپاٹائٹس 13لاکھ40ہزار اموات کی وجہ بنتا ہے۔ یہ تعداد ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور ٹی بی کے باعث موت کے منہ میں جانے والے افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہی نہیں، ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی دنیا بھر میں 80فیصد جگر کے کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو نہ صرف کسی خاص محل وقوع یا مخصوص لوگوں کے گروہ کو اپنا شکار بناتی ہے بلکہ یہ عالمی طور پر ایک وباء کی صورت اختیار کررہی ہے۔

قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ لاعلمی اور درست تشخیص کا عمل نہ ہونے کے باعث کئی مریضوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال ہر سال ہزاروں متاثرہ افراد کی زندگی کو دردناک بنانے کے ساتھ ساتھ انھیں موت کے منہ میں دھکیلنے کا سبب بن جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں، لاعلمی اور تشخیص کی عدم موجودگی میں یہ مرض انفیکشن کی صورت دیگر افراد میں بھی بآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں 30کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس جیسے خطرناک مرض کے ساتھ زندگی گزارہے ہیں اور وہ اس سے لاعلم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کا تھیم Missing Millions رکھا گیا ہے، یعنی ان لاکھوں کی تعداد میں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ افراد کو ڈھونڈنا ہے، جو اس مرض کا شکار ہونے کے باوجود اس سے لاعلم ہیں۔

ہیپاٹائٹس کی اقسام

ہیپاٹائٹس کی کئی اقسام ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای شامل ہیں۔ہیپاٹائٹس اے اور ای کو پیلا یرقان جبکہ بی اور سی کو کالا یرقان کہا جاتا ہے۔ پاکستان بھر میں ہیپاٹائٹس اے زیادہ عام ہے۔ 4.5فیصد پاکستانی ہیپاٹائٹس سی جبکہ1.5فیصد ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر 35کروڑ افراد ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں، ان میں 75فیصدافراد ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ 25فیصد متاثرہ افراد کا ہیپاٹائٹس بی یا اس سے متعلقہ امراض کی وجہ سے موت کا شکار ہونے کا خدشہ ہوتاہے۔ ہیپاٹائٹس کی اقسام بی اورسی زیادہ خطرنا ک سمجھی جاتی ہیں جبکہ اے، ڈی اور ای زیادہ خطرناک نہیں اور ان سےمتاثرہ شخص چند دنوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔

وجوہات

اس مرض کی اصل وجہ ایک وائرل انفیکشن ہے لیکن یہ مرض مختلف وجوہات کی بناء پر بھی انسانی جسم پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ مثلاً، ادویات کے استعمال کا ری ایکشن، خون کی منتقلی، تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کا مرض، استعمال شدہ اور آلودہ انجیکشن یا سرجیکل آلات کا استعمال، متاثرہ سوئی سے کان چھیدنا، آلودہ ٹوتھ برش اور منشیات یا الکوحل وغیرہ کا استعمال کرنا۔ متاثرہ مریضوں میں سب سے پہلے اس مرض کی تشخیص ضروری ہے، جوکہ علامات اور بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے بآسانی ممکن ہے۔

بچاؤ

ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کی وجوہات اور بچاؤ کی تدابیر بھی مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ مخصوص اقسام کے ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر یہاں بیان کی جارہی ہیں:

٭معاشرتی سطح پر ہیپاٹائٹس اے کوصاف پانی کی فراہمی، نکاسی کے بہتر نظام، متوازن خوراک کی فراہمی اور قوت مدافعت کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔

٭ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے لیے نومولود کو ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے ٹیکےاور 18ماہ کے دوران طبی معالج سےکورس مکمل کروانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بچوں کو ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لیے ویکیسینیشن دی جاتی ہے۔

٭ ہیپاٹائٹس سی سے بچاؤ کے لیےہمیشہ نئی اور جراثیم وبیکٹیریا سے پاک سرنج کا استعمال ضروری ہے، ساتھ ہی کسی دوسرے فرد کا کنگھا اور ٹوتھ برش استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مزید برآں، دندان ساز کو سرجیکل آلات استعمال کرتے وقت خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

تازہ ترین