لاہور(نمائندہ جنگ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہےکہ ججوں کی معاونت کیلئے ریسرچ سینٹر بنادیئے،کمپیوٹر ایک کلک پر تمام کیس لاز اور ممکنہ فیصلہ بتادے گا، ریسرچ میں سپریم کورٹ کاجج،8سول ججز اور نوجوان وکلاء کی ٹیم شامل ہے، ہمارا اگلا قدم پولیس ایسسمنٹ کمیٹیوں کا قیام ہے جو ریٹائرڈ سیشن جج اور 9 نوجوان وکلاء پرمشتمل ہوگی، یہ کمیٹی کسی ملزم کے مقدمہ میں بری یا ضمانت منظور ہونے پر اس امر کا جائزہ لیگی کہ پولیس تفتیش میں کہاں خامی ہے، پروسیکیوشن نے اگر کیس صحیح نہیں بنایا تو متعلقہ لوگوں کیخلاف ایکشن لیا جائیگا، انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ نے خاموش انقلاب برپاکردیا ہے،ماڈل کورٹس سے ہائیکورٹ پر بوجھ کم ہوا ہے،انصاف کی جلد فراہمی کیلئے ماڈل کورٹس کردار ادا کررہی ہیں، فوری انصاف کی فراہمی ہرشہری کا بنیادی حق ہے،جھوٹی گواہی دینے والوں کو سزا دیکرمثال قائم کرنی چاہیے کیونکہ یہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور درست ثبوت کےبغیر انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ ان خیالات کا انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی لاہور میں ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے جینڈر بیسڈ وائیلنس قوانین سے متعلق دوسری 3روزہ ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 10 معاشرے کے ہر فرد کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے، ہرشخص کو انصاف کی فراہمی ہمارا بنیادی فریضہ ہے، لازمی نہیں ہے کہ ہر معاشرے میں ایک صنف مظلوم رہے گی اور دوسری صنف ظالم ہی تصور کی جائے گی،ہمیں بچوں اور خواتین پر تشدد کیخلاف عدالتوں میں ملزموں کو فیئر ٹرائل کا حق دینا ہے،یہ تاثر نہ جائے کہ یہ خواتین کے تحفظ کی عدالت ہےبلکہ یہاں مردوں کو بھی انصاف ملے گا ۔جینڈر بیسڈ وائیلنس کرائمز میں فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کیلئے ججز کو اوپن مائنڈ کے ساتھ بیٹھنا ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ہمارا آئین تمام شہریوں کو برابر حقوق دیتا ہے اور ان حقوق کے تحفظ کیلئے ہم نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں جن میں سے جینڈر بیسڈ وائیلنس کورٹس کا قیام بھی ایک ہے،اس ملک کی سینئر جوڈیشری نے 5 اہم پروگرام شروع کئے ہیں، جینڈر بیسڈ وائلنس کورٹ اس کا ایک حصہ ہے۔ ہمارا پہلا اقدامات جھوٹی شہادتوں اور جھوٹے گواہان کیخلاف ہے اور آج مختلف عدالتوں میں جھوٹے گواہان کیخلاف مختلف مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ ہمارا دوسرا اہم اقدام ججز کی استعداد کار میں اضافہ ہے اور ہم مشکور ہیں پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے جو ہمارے اس مقصد کے حصول کیلئے ہمارے شانہ بشانہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کی فلاح کیلئے تیسرا اقدام پولیس اصلاحات ہیں تاکہ پولیس کا امیج عوام کے سامنے بہتر ہو سکے،جس کیلئے بہت موثر اقدامات کئے جارہے ہیں، پولیس نے گزشتہ 3 ماہ میں خود بخود 71 ہزارشکایات نمٹائی ہیں جبکہ پہلے یہی معاملات عدالتوں میں آتے تھے،پولیس ریفامز کے بعد ہائیکورٹس میں اس قدام سے مقدمات دائری میں 20 فیصد کمی آئی ہے،اسسیسمنٹ کمیٹی کے ممبران میں سابق سیشن ججز اور 9 نوجوان وکلاء شامل ہونگے،یہ کمیٹی کسی ملزم کے مقدمہ میں بری یا ضمانت منظور ہونے پر اس امر کا جائزہ لے گی کہ پولیس تفتیش میں کہاں خامی ہے،پولیس نے کہاں کیا غلطی کی ہے کہ ملزم بری ہوگیا، ان اقدامات کی بدولت ضلعی عدلیہ میں نئے دائر ہونے والے اقدمات میں 11 فیصد کمی ہوئی ہے اور اعلیٰ عدلیہ میں ایسے مقدمات میں 20 کمی ہوئے ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسیہ نے کہا کہ ہماری جانب سے عوامی فلاح کیلئے اٹھایا جانے والا چوتھا اقدام عدالتوں کی استعداد کار میں اضافہ ہے جس کیلئے ہر عدالت کو ریسرچ سینٹر سے منسلک کیاجارہا ہے جہاں ہر طرح کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا طریقہ کار اپنایا جائے گا تاکہ مقدمات کے فیصلے کرتے ہوئے ججز کو ہر طرح کی ممکنہ معاونت کو یقینی بنایا جاسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہماری عدلیہ میں انقلاب پیدا کردیگا اور مقدمات کے فیصلے دنوں کی بجائے گھنٹوں میں اور گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں لکھے جائیں گے، ہمارا ایک اور اہم اقدامات ماڈل کورٹس کا ہے، آج ہمیں بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ گزشتہ 96 دنوں میں ملک بھر میں قائم کریمنل ماڈل کورٹس میں 10 ہزار 600 قتل اور نارکوٹس کے ٹرائلز مکمل کئے گئے،ہم نے سول اور جوڈیشل مجسٹریٹس کی ماڈل کورٹس بھی قائم کردی ہیں، یہ سب کچھ وکلاء،پولیس،محکمہ جیل، پراسکیوشن کے تعاون سے ممکن ہوا،ہم نے کچھ بھی اضافہ نہیں کیا،بس فائن ٹیون کیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آگے آنے والے دنوں میں عدالتی نظام میں مزید بہتری آئی گی،اسکا کریڈٹ ہمارے ججز، وکلاء، پولیس اور پراسیکیوٹرز کو جاتا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے اختتامی سیشن سے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جینڈر بیسڈ وائیلنس ہماری سوسائٹی کا ایک خوفناک پہلو ہے، جسے کچھ عرصہ قبل تک ٹھیک سے جانا بھی نہیں گیا تھا، اگر کوئی ایسے جرائم کا شکار فرد عدالت میں آتا تو اسے ایک بھری عدالت میں اپنے اوپر ہوئے ظلم کی کہانی سنانا پڑتی تھی جس وجہ سے ایسے جرائم کا شکار متاثرین عدالتوں میں آنے سے ڈرتے تھے،ہم نے ایشیائی ترقیاتی بنک کے اشتراک سے اس پہلو کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور پھر لاہور میں پاکستان کی پہلی جینڈر بیسڈ وائیلنس کورٹ کا آغاز کیا جہاں صرف جینڈر بیسڈ جرائم کی سماعت شروع ہوئی۔ فاضل جسٹس نے کہا کہ ہمیں صنفی حساسیت کے حوالے سے بھی کام کرنا ہے، کام کرنے کی جگہوں پر صنفی حساسیت بہت ضروری ہے تاکہ کوئی صنف کسی دوسری صنف کو ہراساں نہ کرسکے۔