• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرصہ دراز سے یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ کرہ ارض پر موسمی تغیر کے باعث ہمیں حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے۔ لاریب کہ موسمی شداید پر قابو نہیں پایا جا سکتا لیکن ان سے تحفظ کی سبیل نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی سمیت سندھ اور پنجاب کے بیشتر شہروں میں ہونے والی شدید بارش نے نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا جبکہ محض شہر قائد میں بھی کرنٹ لگنے سے ایک خاتون اور چار بچوں سمیت 14افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ ان ہلاکتوں کی وجہ یقیناً بارش کی زیادتی بھی ہے لیکن زیادہ عمل دخل بجلی کے ناکارہ اور فرسودہ نظام ترسیل کا ہے، لامحالہ اس کی ذمہ داری بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں اور عملے پر عائد ہوتی ہے۔ کراچی ہی کیا ملک بھر میں بجلی کا ترسیلی نظام اتنا ناقص، ناکارہ اور فرسودہ ہے کہ معمولی آندھی طوفان اور بارش سے اس کے فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں، کبھی وولٹیج زیادہ ہو جائے تو تار جل یا پگھل کر گر پڑتے ہیں یا ٹرانسفارمر دھماکے سے اڑ جاتے ہیں۔ مالی سال 2017-18کے دوران صرف پنجاب میں غیر معیاری ترسیلی نظام کے باعث بجلی کے یونٹس کے ضیاع، جسے لائن لاسز بھی کہتے ہیں، کی مد میں قومی خزانے کو کم و بیش سو ارب روپے نقصان اٹھانا پڑا تھا تب اس فرسودہ نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی بات بھی ہوئی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یاد رہے کہ قومی بجٹ کا ایک قابلِ ذکر حصہ پاور سیکٹر کے لئے مختص کیا جاتا ہے جس کا بڑا حصہ ہمیشہ این ٹی ڈی سی کا رہا ہے کہ اس کا مقصد ٹرانسمیشن لائن کی اپ گریڈیشن اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو جدید بنانا ہے۔ یہ نظام کتنا ’’جدید‘‘ بنایا گیا ہے کراچی کی 14ہلاکتیں اس کا مظہر ہیں جنہوں نے یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ بجلی کا ترسیلی نظام اپنی فرسودگی کے باعث موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں، یہ غالباً مرمت کےلائق بھی نہیں چنانچہ اس کی مکمل اور جدید انداز میں تبدیلی ضروری ہے، یہ تبدیلی ہر سال کے لائن لاسز سے کہیں سستی پڑے گی اور ہمیں جانی نقصان کے صدمے بھی برداشت نہیں کرنا پڑیں گے۔

تازہ ترین