جب بورس جانسن کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں اپنے حریف سابق وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کو شکست دے کر کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر اور برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو مبصرین کی توجہ ان کے سیاسی سفر کے ساتھ ساتھ انکی غیر روایتی، منفرد اور کرشماتی شخصیت پر بھی مرکوز رہی- یقیناً یہ ایک حقیقت ہے کہ بورس جانسن کی اسی غیر روایتی شخصیت نے ان کو برطانوی عوام اور کنزرویٹو پارٹی میں اتنا مقبول کر دیا کہ بالآخر پارٹی قیادت اور وزارت عظمیٰ انکے حصے میں آگئی- ویسے تو بورس جانسن کی شخصیت کے دلچسپ اور منفرد پہلوئوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ہمارے قارئین کے لئے شاید یہ بات باعث دلچسپی ہو کہ معروف ترک صحافی اور سیاستدان علی کمال بورس جانسن کے پڑدادا تھے جو سلطنت عثمانیہ کے دوران وزیر داخلہ بھی رہے- بورس کی پہلی بیوی کی والدہ کا تعلق بھی پاکستان سے تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے پاکستان کےدورے میں کیا- دو دفعہ لندن کے میئر کی حیثیت سے اپنی غیر روایتی اور منفرد طرز گورننس سے شہرت پانے والے بورس جانسن برطانوی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے اپنے ترک پڑدادا کی طرح صحافی تھے- وہ ممتاز برطانوی اخبارات دی ٹائمز اور دی ٹیلیگراف کے ساتھ بھی منسلک رہے- تقریباً پندرہ سال پہلے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بننے کے بعد جب بورس جانسن برطانوی وزیر خارجہ بنے تو ان کی شہرت بین الاقوامی سطح تک پہنچ چکی تھی- پھر اچانک 2018میں انہوں نے وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا- ویسے تو چند سیاسی پنڈتوں نے اسی وقت ان کے مستقبل کا وزیراعظم ہونے کی پیشگوئیاں شروع کر دی تھیں لیکن جب تک وزیراعظم تھریسا مے نے خود استعفیٰ نہیں دیا بورس جانسن نے بھی پارٹی لیڈر شپ کو چیلنج کرنا مناسب نہیں سمجھا- بالآخر تمام سنگ میل عبور کرتے ہوئے بورس جانسن جب ملکہ برطانیہ سے ملاقات کے بعد وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ یعنی 10ڈاؤننگ اسٹریٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو تمام سیاسی مبصرین نے اس کو نہ صرف بورس جانسن کی بلکہ برطانوی نظام جمہوریت کی فتح قرار دیا-
آج 10ڈاؤننگ اسٹریٹ میں بیٹھے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو جن گھمبیر چیلنجز کا سامنا ہے غالباً ان میں سر فہرست بریگزٹ ڈیل ہے یعنی وہ ڈیل جس کے نتیجے میں اسی سال اکتوبر میں برطانیہ یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا- وزیراعظم بنتے ہی بورس جانسن نے یہ کام تین ماہ میں کر دکھانے کا اعلان کیا ہے- یاد رہے تھریسامے یہ کام تین سال تک نہ کر پائیں اور بالآخر استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئی تھیں لیکن وہ تھریسامے تھیں اور یہ بورس جانسن ہیں- میری نظر میں بورس جانسن اپنی منفرد اور غیر روایتی سیاسی مہارت سے بریگزٹ جیسے کڑے چیلنج میں کامیاب ہو جائیں گے- میں ان مبصرین سے بھی متفق ہوں جن کے مطابق یورپین یونین سے علیحدگی کے بعد بورس جانسن کی قیادت میں برطانیہ کی ترجیحات میں جو تبدیلیاں رونما ہوں گی ان میں سے ایک برطانیہ کا کامن ویلتھ ممالک پر زیادہ سے زیادہ انحصار ہوگا- برطانیہ یورپین یونین کو خیر باد کہنے کے بعد اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو کامن ویلتھ ممالک سے مزید فعال بنانا چاہتا ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوگی وہ پاکستان اور برطانیہ کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے لئے بھی اہم موا قع فراہم کرے گی- امید ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے پاکستانی پالیسی سازوں کی نظر بھی بریگزٹ کے بعد بدلتی ہوئی صورتحال پرضرور ہوگی-
POST BREXIT BRITAINمیں ضروری ہے کہ پاکستان برطانیہ کے ساتھ تجارتی حجم بڑھانے کیلئے ایک مربوط اور ٹھوس حکمت عملی تشکیل دے۔ وزیراعظم بورس جانسن ہمیشہ سے پاکستان اور برطانیہ کےمابین مضبوط اور تاریخی تعلقات کو مزید وسعت دینے کے خواہاں رہے ہیں انہوں نے 2016میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کا ایک اہم دورہ بھی کیا تھا- وہ اسوقت کے وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان سے متعددبار ملاقاتیں کر چکے ہیں- وہ کامن ویلتھ کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا اور خطے میں پاکستان کی اہمیت سےبھی بخوبی واقف ہیں- حسن اتفاق سے پاکستان اور برطانیہ دونوں میں ہی نئے وزرائے اعظم برسر اقتدار ہیں اور دونوں کے لئے بریگزٹ کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال دوطرفہ تعلقات کو ایک نیا موڑ دے کر ہمارے تجارتی حجم میں اضافے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتی نظر آ رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کے پالیسی ساز کیا ایسی تجارتی حکمت عملی تیار کر پائینگے جس کے نتیجے میں پاک برطانیہ اقتصادی روابط میں مزید وسعت آ سکے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)