• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں تعصبات کی آندھیوں نے اس قدر دھول اڑائی ہے کہ دھرتی کے بہادر سپوتوں کے نقش پا ہی باقی نہیں رہے اور ہم اپنے ہیرو گنوانے کے بعد دوسروں سے بہادری کا سبق لیتے پھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہیرو تو وہ حریت پسند ہیں جنہوں نے اپنے لہو سے آزادی کا خراج ادا کیا۔ حاجی صاحب ترنگزئی، فقیر آف ایپی، سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، مولانا حسرت موہانی، سکھ دیو، راج گرو، باچا خان اور اودھم سنگھ جیسے مزاحمت کار ہمارے ہیرو ہیں جنہوں نے جہد مسلسل کو حرز جاں جانا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان لوگوں کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے جو یہاں مسلط انگریز سرکار کے وفادار رہے، تاج برطانیہ کی فوج میں شامل ہو کر استعماری مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔ کچھ عرصہ قبل راجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب ہوا تو بہت ہاہاکار مچی جبکہ غیر ملکی حملہ آوروں کو مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان فراموش کئے گئے ہیروز میں سے سب سے بڑا نام راجہ پورس کا ہے جس نے سکندر اعظم کو ناکوں چنے چبوا دیئے مگر ہم نے یونانی مورخین سے متاثر ہو کر پورس کے ہاتھیوں کو طنز و استہزا کا استعارہ بنادیا اور اس کے کارناموں سے بے بہرہ ہو گئے۔ جب بھی کوئی شخص اپنی صفیں تہس نہس کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو فلاں کیلئے پورس کا ہاتھی ثابت ہوا حالانکہ یہ محاورہ یونانیوں نے راجہ پورس کا مذاق اڑانے کے لئےگھڑا۔

یونان کے شہر مقدونیہ سے تعلق رکھنے والا سکندر اعظم پنجاب پر حملہ آور ہوا تو آدھی دنیا فتح کر چکا تھا اور اپنی بے پناہ فتوحات اور جنگی تجربے کے باعث ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا۔ سکندر نے اس وقت کی چار بڑی تہذیوں کو زمین بوس کیا۔ وہ ایشیائے کوچک سے ہوتا ہوا مصر میں داخل ہوا، وہاں سے بابل و نینوا کی تہذیب یعنی عراق کو اپنی راجدھانی کا حصہ بنایا، پھر ایران پر یلغار کرکے تختِ جمشید کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر کاکیشیا کو فتح کرنے کے بعد کوہ ہندوکش کا سلسلہ عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوا۔ مورخین بتاتے ہیں کہ سکندر خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے پنجاب میں داخل ہوا، اس دوران اسے کہیں مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ٹیکسلا کے راجہ امبھی نے سکندر یونانی کی اطاعت قبول کرلی مگر جہلم اور گرد و نواح کے علاقوں پر حکومت کرنے والے راجہ پورس نے اپنی دھرتی کا خون کے آخری قطرے تک دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ راجہ پورس نے شہر سے باہر نکل کر سکندر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دریائے جہلم کے کنارے پڑائو ڈال دیا۔ سکندر کی فوجیں دریائے جہلم کی دوسری طرف خیمہ زن ہو گئیں۔ بارشوں کے باعث دریا میں طغیانی کی کیفیت تھی۔ کئی ماہ گزر گئے مگر سکندر کی فوج دریا پار کرنے کی ہمت نہ کر سکی۔ اسے دریائے جہلم میں کسی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں سے چپکے سے دریا پار کیا جا سکے۔ سکندر کی فوج میں ایک جرنیل اطلوس کی سکندر سے بہت مشابہت تھی۔ اس نے اطلوس کا تاج پہنا کر اپنے گھوڑے پر سوار کیا تاکہ دشمن کو یہی محسوس ہو کہ سکندر فوج کے درمیان موجود ہے اور خود دریا پار کرنے کی ترکیب سوچنے لگا، آخر کار اسے 17میل دور مطلوبہ مقام میسر آگیا، ایک اندھیری رات جب موسلا دھار بارش ہو رہی تھی سکندر نے اپنی فوج کو دریا میں اترنے کا حکم دیا اور سب سے پہلے اپنی کشتی دریا میں اتاری۔ سکندر کی فوج صف بندی میں ہی مصروف تھی کہ راجہ پورس کا بیٹا چند سو فوجیوں کے ہمراہ اُدھر آنکلا اور لڑائی شروع ہوگئی۔ تمام مورخین اس لڑائی کو کانٹے دار مقابلہ قرار دیتے ہیں۔ بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب پورس کے ہاتھیوں نے سکندر کی فوج کو کچل کر تہس نہس کر دیا، گھوڑے مارے گئے تو فوج میں بددلی پھیل گئی اور سکندر کے فوجی روتے ہوئے کتوں کی سی آوازیں نکالنے لگے۔ فردوسی کے ’’شاہنامہ‘‘ میں بھی سکندر کی مایوسی اور جنگ بندی کی خواہش کا ذکر کیا گیا ہے۔ جوزف بن گوریان نے ’’History of the Jews‘‘میں لکھا ہے کہ جب جنگ غیر ضروری طوالت اختیار کر گئی تو سکندر نے پورس کو پیغام بھیجا کہ کیوں نہ جنگ روک کر ہم دونوں اپنی تلواروں سے فتح اور شکست کا فیصلہ کر لیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ راجہ پورس کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا اور سکندر کے سامنے پیش کیا گیا تو اور اس سے پوچھا گیا کہ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ پورس نے شان ِبے نیازی سے کہا ’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے‘‘۔ اس پر سکندر نے پورس کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اپنا دوست بنا لیا اور نہ صرف اس کی سلطنت اسے لوٹا دی بلکہ کئی دیگر علاقے بھی اسے تحفے کے طور پر دیدیئے۔ لیکن بیشتر مورخین اس روایت کو انتہائی ضعیف اور غیر معتبر خیال کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کبھی کوئی فاتح شکست خوردہ سپہ سالار سے اس قدر اعلیٰ ظرفی سے پیش نہیں آسکتا، بالخصوص سکندر جیسے شخص سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سکندر انتہائی منتقم مزاج شخص تھا، اس نے مساگا سے لائے گئے قیدیوں کو جان بخشی کا وعدہ کر لینے کے باوجود قتل کر ڈالا۔ پنجاب ہی کے شہر سانگلہ ہل میں کاٹھہ قبائل نے مزاحمت کی اور بہت بہادری سے یونانی فوج کا مقابلہ کیا لیکن جب سکندر فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوا تو اس نے سب کچھ تہس نہس کر دیا، کسی کو بہادری کی بنیاد پر جان بخشی یا حسن سلوک کا حقدار نہیں سمجھا ، پھر پورس پر یہ مہربانی اور شفقت کیسے کی جا سکتی تھی؟ ایک اور روایت جو حقیقت کے قریب تر محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ میں بے پناہ نقصان اُٹھانے کے بعد سکندر نے پورس کے پاس کئی پیغام رساں بھیجے، ان میں سے ایک کو تو پورس نے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ آخر کار سکندر نے پورس کے دوست میروس کو صلح جوئی اور ملاقات کا پیغام دے کر بھیجا۔ پورس کی فوج بھی تھک چکی تھی چنانچہ پورس سکندر سے ملاقات پر آمادہ ہوگیا اور یوں یہ جنگ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گئی۔ اسی جنگ کے دوران لگے ایک زہر آلود تیر سے ہی بعد ازاں سکندر کی موت واقع ہوئی۔

پورس کے ہاتھیوں نے زخمی ہونے کے بعد اپنی فوج کی صفیں ضرور درہم برہم کیں لیکن اس جنگ میں یونانی فوج کو زیر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس تاریخی معرکے کا سبق یہ ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، محض بندوق کے بل پر راج نہیں کر سکتا اور ’’پورس کے ہاتھی‘‘ وقتی طور پر تو پسپائی کا باعث بن سکتے ہیں مگر ان کے ذریعے دائمی شکست نہیں دی جا سکتی۔

تازہ ترین