پیر کادن انسانیت کی تاریخ میں ایک سیاہ اور مایوس کن دن تھا جب مودی کی زیرقیادت بھارت میں بی جےپی کی حکومت نے معصوم کشمیریوں کو ان کےاُس سپیشل سٹیٹس سےمحروم کردیا جو ان کے پاس سات دہائیوں سے تھا۔ آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے سے بھارت کے باقی لوگوں کو اب یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جائیداد لے سکتے ہیں اور وہاں مستقل طورپر رہ سکتے ہیں جس کا مقصدکشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنااور مسلم اکثریت کواقلیت میں بدلناہے۔ وزیراعظم نریندرامودی آرایس ایس اوردیگر ہندو انتہاپسندتنظیموں کے کارکنان کو کشمیرمیں لانا چاہتے ہیں تاکہ کشمیر کو مزید دبایا جاسکے۔ آرٹیکل 370کو ختم کرنےکا بی جے پی حکومت کا اقدام نہ صرف عالمی روایات اور قانون کےخلاف ہےبلکہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت کشمیر کامتنازع سٹیٹس تبدیل نہیں کرسکتا، پیر کو اس نےجلدی سے صدارتی حکمنامے کے ذریعے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا۔ مزیدبرآں، بھارتی مقبوضہ کشمیر کو عالمی طورپر ایک ’متنازع علاقہ ‘ قرار دیا گیا ہے اور بھارتی حکومت کے ایسے اقدامات وزیراعظم مودی کی 2025تک ’ایتھنک کلینزک ڈاکٹرائن‘ کاتسلسل ہے کیونکہ ہندوانتہاپسند تنظیم آر ایس ایس کو 2025میں 100سال مکمل ہوجائیں گے۔ بی جےپی حکومت نےآر ایس ایس سےپیداہونےوالی تنظیم ہونے کے ناطےکشمیرکےخودمختار سٹیٹس کےخلاف انتہا پسند ہندوایجنڈے کی پیروی کی اور نریندرامودی نے اپنی الیکشن مہم کےدوران پہلے ہی یہ اعلان کردیاتھا۔ صدارتی آرڈر نے آرٹیکل 370اور 35A کوختم کیا، جموں کشمیر کو اس کے آئینی حق سے محروم کردیا۔ بھارتی حکومت علاقے میں ہندوں کو لاکرمسلم اکثریت کو نشانہ بنارہی ہے جس سےاقوام متحدہ کےزیرانتظام ہونے والےریفرنڈم پراثر پڑےگا ۔ انھیں رہائشی کا سٹیٹس دیاجائےگا،اوروہ پراپرٹی کی خریدوفروخت کرسکیں گے،اوربھارت کےآئین کےتحت سرکاری نوکری کرسکیںگے۔ اسی منشورکوبی جےپی حکومت آگے بڑھا رہی ہےاورکشمیر میں موجودہ جارحیت اورڈیموگرافک تبدیلیاں کرنے کی کوشش آرایس ایس اور بی جےپی کامشترکہ ایجنڈاہے۔دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نریندرامودی بطوروزیراعظم اور بھارت بطورایک ریاست بڑھتی ہوئی طاقت کےنشے میں بدنام ہورہے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیائی خطےپرغلبہ چاہتے ہیں۔ بھارتی این ایس اےکی پالیسیز سےپاکستان مخالف موقف واضح طورپرظاہر ہوتاہے۔ ہمسایہ ممالک پرغلبہ حاصل کرنےکیلئے بھارت کوئی کسرنہیں چھوڑ رہا اور خطےکا امن دائو پرلگا رہاہےاور بھارت کو یہ جان لیناچاہیئے کہ پاکستان ایک جوہری ریاست ہے لہذا وزیراعظم مودی یا ان کی این ایس اےکی جانب سے کوئی بھی قدم یاپورے خطے کا امن برباد کردےگا۔ اجیت دودل (نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر) اس تمام صورتحال میں ایک اہم کردار ہے۔ آرٹیکل 370اور35Aکو ختم کرنا کشمیر کے مسئلے سے نمٹنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ بھارت جنوبی ایشیائی خطےکےامن سے کھیلنے پر بضد ہے اوروزیراعظم مودی کی انتطامیہ میں روز بروز پاکستان مخالف نفرت بھارت میں بڑھ رہی ہے۔ میں وزیراعظم مودی کا رویہ دیکھ رہاہوں اور میں نےپلوامہ واقعے سے قبل ہی پیش گوئی کی تھی کہ بھارت خود کیلئےکوئی دہشتگردی کارروائی کرےگا تاکہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کیاجائے اور بھارتی انتخابات کےدوران پاکستان مخالف مائنڈ سیٹ کواستعمال کیاجاسکے۔ میں نے شواہد کے ساتھ اپنی کتاب’’مودیزوارڈاکٹرائن‘‘ میں لکھاہےکہ وزیراعظم مودی کشمیریوں کیلئےمزید جارح اور نقصان دہ ہوں گے اور اگروہ دوسری بار اقتدارمیں آگئے۔ ہمارے کچھ دانشوروں کاخیال تھا کہ نریندرامودی کا دوسرا دورِ حکومت پاکستان کیلئے اچھا ہوگا کیونکہ وہ پاکستان کیلئے دوستی کاہاتھ بڑھا سکتے ہیں لیکن میں ان کےخیالات سےمتفق نہیں تھا کیونکہ میرا تجزیہ اور تحفظات بھارت کے ماضی اور مودی کے جنگی جنون پر مبنی تھے۔ اب وزیراعظم مودی مضبوطی کےساتھ کشمیر میں ’’نسل کشی‘‘ کااسرائیلی ماڈل لارہاہے۔ وہ پہلے ہی ’’لوکل ویلج ڈاکٹرائن‘‘ کےذریعےنسل کشی کے انتظامات کرچکے ہیں، جس کےتحت مقامی ہندو کشمیریوں کےخلاف استعمال ہوں گے اور مزیدفوجی پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں تعینات کردیئےگئے ہیں۔ تمام سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیاگیاہے۔ اتنہاپسند ہندوتمام بھارت میں مسلمانوں کو خوفزدہ کررہے ہیں۔ ایل او سی کے پار سول آبادی پر کلسٹر بموں کا حملہ، مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے نئے فوجی دستوں کی تعیناتی ایسےاشارے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت ’’مودی ڈاکٹرائن‘‘ کو نافذ کرنے کیلئے کس حد تک جا سکتا ہے، ہمیں اس حوالے سے باخبر رہنا ہوگا کہ بھارت اب کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کردےگا اورکشمیریوں کو نسل کشی سے بچنے کیلئے پاکستان اور عالمی برادری کی ضرورت ہے۔ بھارت مقبوضہ وادی میں پہلے ہی اپنی ساری فوجی اور انٹیلی جنس طاقت اتار چکا ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، اس کا مطلب ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں ڈال رہا ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان میں حملے اور بلا اشتعال فائرنگ کے بڑھتے واقعات کسی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔تاریخ سے ثابت ہے کہ انتہا پسند راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے درپے ہے جس میں کوئی اور مذہب وجود نہ رکھتا ہو۔ بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کے پیچھے بھی آر ایس ایس کا ہاتھ ہے اور اب کشمیر میں وہی کچھ دہرایا جائیگا۔ روزانہ کسی نہ کسی وجہ سے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کو ہمیشہ کشمیر کے الگ سٹیٹس سے مسئلہ رہا ہے اور اسکی مرکزی قیادت نے ہمیشہ کشمیر کی خودمختارانہ حیثیت کی مخالفت کی ہے اور مسلمانوں کیخلاف ہر سازش میں آر ایس ایس کی قیادت شریک رہی ہے۔مودی حکومت بھی دراصل ’’دودل ڈاکٹرائن ‘‘ پر عمل پیرا ہے، جس میں یہ شامل ہے کہ کسی طرح بھی ہو سکے تو نوجوانوں کو آزادی کے نعرے بلند کرنے سے روکا جائے۔ اس میں حریت لیڈرشپ کو پابند سلاسل کرنا بھی شامل ہے تاکہ وہ نوجوانوں کو بھارت مخالف اکسا نہ سکیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں ڈوول داکٹرائن کو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پرا ہے کیونکہ کشمیری نوجوانوں نے ہر طرح کی پابندیوں اور مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارتی جارحانہ پالیسیوں کی مزاحمت کی ہے۔ ایک طرف سےنوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے دوسری جانب کشمیری قیادت کی گرفتاریاں کرکے انہیں جیلوں اور گھروں میں قید کردیا گیا ہے۔دودل ڈاکٹرائن میں یہ بھی شامل ہے کہ اقوام متحدہ کا فورم استعمال کرنے کی بجائے پاکستان کیخلاف بھرپور ایکشن لیا جائے ۔ یہاں یہبات قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں مزید فوج کی تعیناتی سے قبل اجیت دودل نے وادی کا دورہ کیا تھا۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم مودی اور قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کو یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ پاکستان اپنی سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔یہ دکھائی دےرہاہےکہ بھارت مودی کے5نکاتی ایجنڈے پر بیوقوفی سےعمل پیرا ہے، کشمیر پالیسی اور پاکستان مخالف اقدامات پر نافذ کرانے میں اجیت ڈوول کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے، ان کے ایجنڈے میں شامل ہے کہ :1۔ کشمیر میں اشتعال پر قابو پانے ، خصوصی حیثیت ختم کرنے اور پاکستان کے خلاف کارروائی کیلئے ایک بار تمام ریاستی وسائل جھونک دیئے جائیں۔2۔ ایل او سی پر زیادہ سے زیادہ فائرنگ اور گولہ بھاری کرکے پاکستانی فوج کو وہاں مصروف رکھا جائے اور اس دوران کشمیر یوں کی نسل کشی کی جائے۔ 3۔ میڈیا پروپیگنڈہ کے ذریعے پاکستان کا منفی امیج پیش کیا جائے اس کیلئے بھارتی اور پیڈ عالمی میڈیا کی خدمات حاصل کی جائیں ۔4۔ پلوامہ طرزکاایک اورڈرامہ رچایاجائے،جعلی ثبوتوں سےالزام پاکستان پرلگاکردبائو ڈالا جائےاورکشمیرمیں وسیع پیمانے پر کریک ڈائون کیاجائے اور اس بار بھارت صدرڈونلڈ ٹرمپ سےقبل بھارت پاکستان کوکمزورکرنےکی کوشش کرےگا اور یہ صرف کشمیر میں کچھ دہشتگرد کارروائی کے باعث ہی ممکن ہوگا یا بھارت امریکا کو یہ موقع فراہم کرےگا کہ وہ افغانستان میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنےکیلئے پاکستان پر دبائودالےاور امریکی شرائط پر طالبان کو میز پر لاکر امن عمل کو خراب کیاجائےگا۔5۔ پاکستان کے خلاف مودی اپنی جنگی ڈاکٹرائن نافذ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور وہ بے نقاب ہوچکے ہیں اورپلوامہ واقعے کےبعدہماری حکمت عملی غیرمثالی طورپردرست سمت میں تھے۔ وہ ایک زخمی سانپ ہے اور وہ پاکستان کےخلاف اپناایجنڈاپوراکرنے کی کوشش میں ہیں۔ پلوامہ ڈرامہ رچانےاورداعش کی جانب سے سری لنکا میں حملوں کےبعدنریندرامودی عالمی برادری اورملکی سیاسی جماعتوں کی جانب سےکافی دبائو میں ہیں۔ ایل اوسی پر بھارتی دبائو بڑھا کرامریکانے ہمیشہ پاکستان سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ مغربی بارڈرپہلے ہی امریکی کمانڈ میں ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاک بھارت صورتحال امریکاکیلئےاسوقت تک بہتر ہے افغان مسئلہ حل نہ ہوجائےاور چین کے ساتھ سردجنگ ختم نہ ہوجائے۔ ہمائے وزیراعظم کا دورہِ امریکا دونوں ممالک کیلئے اچھا رہاخاص طورپر صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم مودی کی کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کے حوالے سےکیاگیاانکشاف لیکن بھارت کی جانب سے اس دعوےکی تردید کردی گئی۔ جب وزیراعظم عمران خان گزشتہ ہفتےایک اعلیٰ سطحی وفدکےساتھ امریکامیں تھےتوہم بھارتی فوج کی اعلیٰ کمانڈکی جانب سے پینٹاگون کےدورےکونہیں بھول سکتے۔ آیئے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکا کےہائی پروفائل دورےاور بھارتی آرمی کے پینٹاگون کے دورے اورامریکاکےطالبان کے ساتھ جاری مذاکرات اور اب پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کاتجزیہ کریں، یہ سب پاکستان کے دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کو پریشان کرنےکیلئے کافی ہے۔ بھارت کچھ کرنے جا رہا ہے جبکہ آرایس ایس نے کہاہے کہ بھارت میں 2035تک ہندوازم کےعلاوہ اورکوئی مذہب نہیں ہوگا اور وہ کھلےعام پاکستان کی علاقائی حدودکونقصان پہنچانے کادعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ گجرات کےقصائی کی زیرقیادت بی جے پی کی حکومت کےناپاک عزائم ہیں جو اب کشمیر کاقصائی بنناچاہتاہے۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ایس اوایس صورتحال پیداکرکے دوست ممالک کا ایک طاقتور بلاک فوری طورپر تیارکریں اوراب حکومت کوصرف بیانات تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیئے بلکہ عالمی برادری کی طرف جانا چاہیئے۔ کیاحکومت پاکستان میں ایک اعلیٰ سطحی سیکیورٹی اور دفاعی کانفرنس کا اہتمام کرےگی اوردنیا کی اعلیٰ قیادت بشمول تمام مسلم امت کی قیادت کودعوت دےگی تاکہ کشمیراورپاکستان کیلئےبھارتی عزائم بےنقاب ہوسکیں؟ حکومت کوپاکستان اوربھارت کےدرمیان کشیدہ ہوتی ہوئی صورتحال پرتمام خصوصی سفراءکوتمام سربراہانِ ریاست کے پاس بھیجنا چاہیئے تاکہ وہ بے نقاب کرسکیں کہ کس طرح بھارت جنوبی ایشیاءکےامن کو خطرے میں ڈال رہاہے اورجموں کشمیر میں اس کی بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیاجاسکے، اس کی پاکستان مخالف پالیسیوں کو دفاعی اور سفارتی پالیسیوں کےساتھ قابوکرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کیلئے یہ ضروری ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کےپاس جائیں اور دنیا کے سامنے اس کا ناپاک چہرہ بے نقاب کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے اتھائے گئے تمام غیرقانونی اقدامات اور آرٹیکل 370کو ختم کرنے کے اس کے فیصلے کو قابوکرنےکیلئےحکومتِ پاکستان کو تمام سفارتی راستے اختیار کرنےچاہیئے۔ سیاسی اختلافات سے قطع نظر اعلیٰ سیاسی قیاست کو بھارت کے خلاف مشترکہ نیشنل کائونٹرسٹریٹجی بنانے کیلئے اکٹھے بیٹھنے کی ضرورت ہے۔