• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقار محسن

دوسرے دوستوں کے علاوہ ایان میاں کی دوستی اپنے مٹھو،بل ہاوئنڈ کتے ڈوزر اور سفید بالوں والی پرشین بلی ریشم سے بہت گہری تھی۔ اب وہ چاروں آوازاور چہرے کے تاثرات سے ایک دوسرے کی باتیں بخوبی سمجھ لیتے کیونکہ پیار کی اپنی الگ زبان ہوتی ہے۔ ڈوزر کی خو،خو۔۔ریشم کی میائوں میائوں اور مٹھو کی ٹیں ۔۔ٹیں کا ترجمہ کرنے میں ایان کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

گرمی کی دوپہر میں جب دادی ایان کو کمرہ میں سلا کر خود بھی خراٹے لینے لگتیں تو ڈوزر کھڑکی کے شیشے سے ناک لگا کر پنجوں سے کھٹ کھٹ کرتا، جس کا مطلب ہوتا کہ باہر آجائو لائن کلئیر ہے۔سگنل ملتے ہی ایان دبے قدموں باہر آجاتے اور چاروں دوست مولسری کے درخت کی ٹھنڈی چھائوں میںریل۔،ریل، اونچا نیچا کھیلتے رہتے۔

ایان کے تینوں دوستوں میں مٹھو سب سے شریر تھا ۔وہ اچانک اچھل اچھل کر چیختا ’’چوہا آیا ۔۔چوہا آیکا۔‘‘ اور جیسے ہی ریشم ہونٹوں پر زبان پھیرتی بھاگ کر آتی وہ قہقہہ لگا کر اس کا مذاق اڑاتا۔رات کو جب ڈوزر گہری نیند میں ڈوبا ہوتا تو مٹھو چور۔۔چور چلا کر اس کی نیند خراب کرتا اور جب ڈوزر بھاگ کر گیٹ پر جاتا تو وہ پنجا اٹھا کر اس کو انگوٹھا دکھاتا۔

مٹھو سے گہری دوستی کے باوجود ایان کو مٹھو کی ایک عادت بہت نا پسند تھی وہ یہ کہ نا جانے کیوں ۱۴ اگست یعنی یوم آزادی کو مٹھو پروں میں چونچ دبائے اداس بیٹھا رہتا اور اپنے دوستوں کی خوشی میں شریک نہیں ہوتا۔

اس بار بھی ۱۳ اگست کی شام سے ہمیشہ کی طرح بہت رونق تھی۔ ایان نے پودوں پر مختلف رنگوں کے بلبوں کی جھالریں لگائی تھیں۔ان کے بابا نے ایک سگریٹ کے پیکٹ کی برابر بجلی کی مشین لا کر دی تھی۔ جس سے نکلتی شعائیں پورے لان میں روشنی کے جھومر بکھیر رہی تھیں۔چھت پر پاکستان کا بڑا سا جھنڈا لہرا رہا تھا۔

آج ایان نے ڈوزر کے لئے بکرے کی ران،ریشم کیلئے چکن کے قیمہ اور مچھلی کے ٹکڑے اور مٹھو کیلئے چم چم کرتی کٹوریوں میں چوری،مٹر کے دانے،امرود اور سیب کے ٹکڑے اور ہری مرچیں رکھی تھیں۔ ڈوزر اور ریشم نے تو اپنی پسندیدہ چیزیں ڈٹ کر کھائیںلیکن مٹھو پنجرہ کی جالی سے چونچ لگائے اداس بیٹھے رہے۔رات کا کھانا کر جب ایان مالی بابارحیم کے کواٹر میں گئے تو بابا بانوں کی چارپائی پر بیٹھے حقہ گڑ گڑا رہے تھے۔ ایان نے بابا سے پوچھا۔

’’بابا !یہ کیا بات ہے کہ میرے سب دوست یوم آزادی بڑے جوش اور خوشی سے مناتے ہیں لیکن یہ نخریلا مٹھو منہ پھلائے بیٹھا رہتا ہے۔‘‘ بابا نے کھانستے ہوئے حقہ ایک طرف رکھتے ہوئے ایان کو اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے کہا۔

’’بیٹا تم ابھی بہت چھوٹے ہو ۔آہستہ آہستہ تمہیں اندازہ ہوگا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔دنیا کی کوئی دولت آزادی سے بڑھ کر نہیں۔مٹھو کو تم نے تمام سہولتیں دی ہیں۔ اس کا خوبصورت پنجرہ ہے،کھانے کہ ہر چیز ہے لیکن وہ آزادی کی نعمت سے محروم ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ درختوں کی ڈالیوں پر چہچہاتے،بارش کی پھوار میں پنکھ کھول کر نہاتے،اپنے ماں باپ ،بچوں اور دوستوں کے ساتھ ہوا کے دوش پر اڑتے پرندے کتنے خوش ہوتے ہیں ۔یہ خوشی آزادی کی خوشی ہے ۔قید خانہ اگر سونے کا بھی ہو تو وہاں دم گھٹتا ہے۔ تم بھی اگر مٹھو کو آزاد کردو تو وہ بھی تم سب کی طرح یوم آزادی پر خوش ہوگا۔

ایان میاں غور سے بابا کی باتیں سنتے رہے۔وہ آہستہ آہستہ انار کے درخت کے نیچے گئے جہاں مٹھو کا پنجرہ ٹنگا تھا۔ایان نے مسکراتے ہوئے پنجرہ کا دروازہ کھول کر سیٹی بجائی ۔پہلے تو مٹھو کو یقین نہیں آیا اور وہ اپنی گو گول آنکھیں گھما کر تعجب سے ایان،ڈوزر اور ریشم کو دیکھنے لگے۔جب ڈوزر نے کہا’’آئیے حضور! آج سے آپ آزاد ہیں ‘‘تو مٹھو خوشی ناچتے ہوئے پھر سے اڑ کر امرود کے درخت کی شاخ پر جا بیٹھے۔

تازہ ترین