• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الف نے اِس دوران سگریٹ سلگا لیا اور سامنے رکھی ہوئی فائل کو یوں دیکھنے لگا جیسے اس کے علاوہ کوئی اور وہاں موجود نہ ہو۔ ب، جیم اور د بے چینی سے پہلو بدلنے لگے مگر الف کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا، شاید وہ اپنی بڑی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وقت لے رہا تھا۔ چند منٹ اسی طرح گزر گئے، بالآخر د نے خاموشی توڑی ’’مسٹر الف، آپ کسی غلط فہمی کا ذکر کر رہے تھے کہ ہم لوگ قانون بناتے وقت غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں.. آخر کون سی غلط فہمی؟‘‘ الف نے مسکرا کر سگریٹ کا ایک اور کش لیا، وہ د کی طبیعت میں پائی جانے والی بے چینی سے محظوظ ہو رہا تھا، اس عمر میں وہ خود بھی ایسا ہی تھا۔ اس سے پہلے کہ د مزید کچھ کہتا، الف نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ’’نوجوان، میں تمہارے سوال کا جواب ضرور دوں گا مگر پہلے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں!‘‘ سب لوگ الف کا منہ تکنے لگے ’’ابھی کچھ دیر پہلے آپ اس قانون کی حمایت کر رہے تھے کہ شورش زدہ علاقوں میں پولیس کو مشتبہ افراد پر گولی چلانے کا اختیار دینا درست ہے چاہے اس سے مشتبہ فرد کی موت ہی کیوں نہ واقع ہو جائے، ہو سکتا ہے اس میں کوئی بے گناہ بھی مارا جائے مگر چند بے گناہوں کے مارے جانے سے اگر ان علاقوں میں دہشت گردی پر قابو پا لیا جائے تو شاید یہ مہنگا سودا نہیں... کیوں، ایسا ہی ہے نا؟ کہیں میں غلط تو نہیں کہہ رہا؟‘‘ کمرے میں موجود باقی تین افراد نے ایک دوسرے کی طرف تائید کرنے کے انداز میں دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا مگر اس سے پہلے کہ الف مزید کچھ کہتا، جیم نے ہاتھ اٹھایا، جیسے وہ کسی اسکول میں بیٹھی ہو اور استاد سے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ ’’میں اس قانون کو سو فیصدی انصاف پر مبنی تو نہیں سمجھتی مگر ضرورتاً اس کی حمایت کر سکتی ہوں... دیکھیں سادہ سی بات ہے، دہشت گرد کسی قانون، ضابطے اور انصاف کے اصولوں کو نہیں مانتے، وہ پولیس پر بھی حملے کرتے ہیں اور اسکولوں میں معصوم بچوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں، ایسے میں اگر آپ پولیس کو یہ اختیار نہیں دیں گے تو پھر دہشت گرد ی کو کبھی ختم نہیں کر پائیں گے‘‘۔ جیم نے جذباتی انداز میں کہا۔ ب اور د نے جلدی سے یوں سر ہلا دیا جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ ہمارا موقف بھی یہی ہے۔ الف کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، شاید وہ ان کے منہ سے یہی سننا چاہتا تھا۔ ’’دوستو! میرے جذبات بھی آپ سے مختلف نہیں، مگر یہاں سوال دہشت گردی کا نہیں، یہاں سوال انصاف کا ہے، ہم یہاں کسی ایک قانون پر بحث کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے، دہشت گردی کے قانون کی مثال میں نے اس لیے دی تھی تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو... اچھا فرض کریں کہ شورش زدہ علاقے میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والا مشتبہ شخص اگر آپ میں سے کسی کا بے گناہ بھائی یا بیٹا ہو تو کیا پھر بھی آپ اسی شدو مد کے ساتھ اس قانون کی حمایت کریں گے اور پولیس کو یہ لا محدود اختیار دینا پسند کریں گے؟‘‘

کمرے میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ ’’شاید نہیں... جبکہ قانون بھی وہی ہوگا اور حالا ت بھی وہی... مگر آپ کی رائے تبدیل ہو جائے گی، محض اس لیے کہ اب آپ کا کوئی پیارا اس قانون کی زد میں آ چکا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے، اور یہی وہ غلط فہمی ہے جو انصاف کی راہ میں آڑے آتی ہے!‘‘

الف ابھی مزید بولنا چاہتا تھا مگر بارش نے اس کی گفتگو کا سلسلہ توڑ دیا، یکایک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تھی حالانکہ چند گھنٹے پہلے جب وہ چاروں اس عمارت میں پہنچے تھے تو مطلع صاف تھا، ب نے اٹھ کر کھڑکیوں کے آگے سے دبیز پردے ہٹا دیئے تاکہ بارش کا نظارہ کرنے میں آسانی ہو، کسی نے اس دوران چائے کی فرمائش کر دی، تھوڑی دیر میں چائے بھی آ گئی، سب گرما گرم چائے کی چسکیاں لینے لگے، بارش نے اب طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی، تھوڑی دیر تک ماحول ایسے ہی رہا پھر ب نے خاموشی توڑی ’’مسٹر الف، آپ کچھ کہہ رہے تھے... وہ غلط فہمی والی بات... اب بھی کچھ واضح نہیں ہوئی!‘‘ ب نے گویا اسے یاد دلایا ’’اوہ اچھا‘‘ الف چونک کر بولا ’’چلیے کوئی اور مثال دیکھتے ہیں، فرض کریں کہ ہم چاروں نے اس بات کا تعین کرنا ہو کہ ہمارے شہر کے مروجہ قوانین کیسے ہوں گے بلکہ یہ تو فرض کرنے والی بات بھی نہیں، حاکم شہر نے ہمیں اسی مقصد کے لیے اکٹھا کیا ہے... خیر، تو اُس صورت میں ہم کوئی بھی قانون بناتے وقت لاشعوری طور پر اپنی موجودہ حیثیت کو سامنے رکھ کر قانون بنائیں گے جبکہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ بھول جائیں کہ ہم کون ہیں، قانون بناتے وقت یا قانون کا اطلاق کرتے وقت ہمارے دماغ میں ایک ایسی کمپیوٹر چپ ڈال دینی چاہئے جس سے وقتی طور پر ہماری یادداشت ختم ہو جائے، ہم بھول جائیں کہ معاشرے میں ہمارا رتبہ اور مقام کیا ہے، صرف اسی صورت میں ہم درست قانون سازی کر سکیں گے!‘‘ الف شاید اپنی بات کی مزید وضاحت کرنا چاہتا تھا مگر د نے یہاں اسے ٹوک دیا ’’آپ تو عجیب و غریب باتیں کر رہے ہیں، دماغ میں کمپیوٹر چپ ڈال دو، کیا ہم یہاں کسی سائنس فکشن میں کام کرنے آئے ہیں !‘‘

’’نہیں، ہم کسی سائنس فکشن میں کام کرنے نہیں آئے برخوردار‘‘ الف مسکرا کر بولا ’’اگر آج ہم حاکم شہر کو صرف یہ ایک اصول سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں تو شہر کے باقی قوانین از خود منصفانہ ہو جائیں گے۔ چلیں، میں ایک آخری مثال دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں، فرض کریں کہ ہمیں کہا جائے کہ شادی سے متعلق قوانین تشکیل دو اور یہ طے کرو کہ مردوں کو کتنی شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے اور طلاق کے بعد عورت کو مرد کی جائیداد سے کتنا حصہ ملنا چاہئے تو ہم کس قسم کا قانون بنائیں گے؟ لامحالہ ہم چاروں کے دماغ میں مختلف تجاویز آئیں گی، جیم ایک خاتون ہیں، یہ کہیں گی کہ مرد صرف ایک شادی کر سکتا ہے، ب ایک بیٹی کا باپ ہے یہ کہے گا کہ طلاق کی صورت میں بیوی کو شوہر کی آدھی جائیداد ملنی چاہئے، د ایک نوجوان ہے، شاید اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا، غالباً یہ اس تجویز سے اتفاق نہیں کرے گا، کیوں، اس لیے کہ ہم سب قانون سازی کی یہ تجاویز اپنی شخصیات کو ذہن کو رکھ کر دیں گے، اگر ہمیں یہ علم ہی نہ ہو کہ جس معاشرے کے لیے ہم یہ قانون تشکیل دے رہے ہیں، اس معاشرے میں ہمارا اپنا مقام کیا ہوگا تو صرف اسی صورت میں ہم انصاف کر پائیں گے‘‘۔ الف نے چائے کی چسکی لے کر اپنی بات ختم کی۔ بارش اب تھم چکی تھی۔

شہر کے لوگ بتاتے ہیں کہ ان چار عقل مند افراد نے حاکم وقت کو تجویز کیا تھا کہ قوانین بناتے وقت اور سرکاری اہلکاروں کے ذریعے ان قوانین کا نفاذ کرتے وقت اگر اِس ایک اصول پر عمل کر لیا جائے تو شہر میں انصاف پر مبنی نظام قائم ہو جائے گا لیکن شاید ایسا نہیں ہوا۔ حاکم شہر کی مجبوریاں آڑے آ گئی ہوں گی۔ آج وہ بستی اجڑ چکی ہے، اب وہاں میلے ٹھیلے لگتے ہیں اور نہ لوگوں کے چہروں پر خوشی دکھائی دیتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر وہ عمارت آج بھی موجود ہے جہاں ان چار عقل مند افراد کا اجلاس بلایا گیا تھا مگر اب اس عمارت میں ویرانی کا راج ہے۔ محکمہ قانون و انصاف کی تختی وہاں سے ہٹا دی گئی ہے۔

تازہ ترین