• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں یا کر دیئے گئے ہیں ، جن میں یوں محسوس ہوتاہے کہ پاکستان کے سارے بڑے کام تحریک انصاف کی حکومت کے ہاتھوں یا اس حکومت کی مدت میں ہونا ہیں ۔ ان بڑے کاموں میں معیشت کو درست کرنے ، کرپشن کے خاتمے ، مسئلہ کشمیر کے حل اور بدلتی ہوئی عالمی صف بندی میں پاکستان کی پوزیشن کے بارے میں فیصلے جیسے بڑے کام شامل ہیں ۔ یہ سارے کام توقع کے مطابق نہ ہوئے یا توقع سے بہت زیادہ برعکس ہوئے تو ایسا ’’ بیک فائر ‘‘ ( Back Fire ) ہو سکتا ہے ، جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بیک فائر یعنی غلط نتیجے والی صورت حال سے بہرحال بچنا ہے ۔

معیشت کو درست کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ، ان کے بارے میں خود تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی ٹیم کے ارکان جو رائے دے رہے ہیں ، اس سے تاثر مل رہاہے کہ ان اقدامات کے فوری نتائج مزید مشکلات کی صورت میں نکل رہے ہیں ۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان رضا باقر نے اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ معیشت سست روی کا شکار ہو گئی ہے ۔ افراط زر ، مہنگائی اور بے روزگاری سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ حکومت ایک ’’ پلان ‘‘ پر کام کر رہی ہے ، جس سے چیزیں بہتر ہوں گی ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ حقیقت تو بیان کر دی ہے کہ حکومتی اقدامات سے معیشت سست روی کا شکار ہوئی ہے ۔ یہ ان اقدامات کا فوری نتیجہ ہے ۔ ابھی تک یہ مفروضہ تحریک انصاف کے حکمرانوں کے سیاسی بیانیہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے جس ’’ پلان ‘‘ کا ذکر کیاہے ، اس کا وزیر اعظم یا مشیر خزانہ نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہے ۔ سختیوں کے باوجود سرمایہ باہر جا رہاہے ۔ تاجر اور سرمایہ کار بے یقینی کا شکار ہیں ۔ پاکستان کے اکثریتی لوگوں کی مشکلات ان کی قوت برداشت سے زیادہ ہیں ۔ معیشت کی سست روی کے ساتھ مفروضے کو حقیقت میں کیسے تبدیل کیا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب ماہرین معیشت کے پاس بھی نہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سخت فیصلے کرنا ضروری ہیں لیکن سخت فیصلوں پر عمل درآمد کا ایسا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ’’ اکنامک انارکی ‘‘ پیدانہ ہو ۔

کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بھی انتہائی پرکشش ہے ، جس کی کوئی بھی مخالفت نہیں کر سکتا لیکن کرپشن کے خلاف اقدامات کو مخصوص سیاست دانوں تک محدود رکھنے سے احتساب کے عمل کے بارے میں نہ صرف شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں بلکہ اس عمل پر لوگوں کا اعتماد بھی متزلزل ہو رہاہے اور سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی پولرائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے ، جو بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہے ۔ اس پولرائزیشن کو بھی روکنا ہے ، جو کچھ کوتاہ نظر لوگوں کے لیے فضول کام ہے لیکن اس کے بہت خطرناک اثرات ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے دورہ امریکا کی سب سے بڑی کامیابی یہ تصور کی جا رہی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن اس دورے کے فوراََ بعد ڈرامائی طور پر بھارت کی دائیں بازو کے مذہب پرست وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا اور ایک متنازعہ علاقے کو بھارتی یونین کا حصہ بنا دیا۔ یعنی اس متنازعہ علاقے پر باقاعدہ قبضہ کر لیا ۔ اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مزید کئی لاکھ فوج وہاں اتار دی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت اس کے لیے جنگ کی تیاری بھی کر چکا ہے ۔ یہ پاکستانی حکومت کی کامیابی ہے کہ کشمیر کے ایشو پر 50 سال کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرالیا لیکن یوں محسوس ہوتاہے کہ مسئلہ کشمیر کو بعض عالمی طاقتیں حل نہیں ہونے دے رہی تھیں اور اب وہ اس کا ایسا حل چاہتی ہیں ، جو ان کے مفاد میں ہو ۔ مسلم ممالک خصوصاََ عرب ممالک کا مودی کے اقدام پر ردعمل ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ۔ اگر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور پاکستان کے موقف کے مطابق حل نہ کیاگیا تو اس کے ’’ بیک فائر ‘‘ کے نتائج ہمارے تصورات سے بھی زیادہ مایوس کن ہو سکتے ہیں ۔

نئی علاقائی اور عالمی صف بندی میں ہمارے دیرینہ اور قابل اعتماد دوست چین کے عالمی کردار میں اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان نے چین کے ساتھ ’’ سی پیک ‘‘ کا معاہدہ کرکے اپنی پرانی صف بندی سے نکلنے کی ایک پوزیشن بنالی تھی اور ڈکٹیشن لینے کی بجائے بارگیننگ پوزیشن میں آ گیا تھا ۔ اب خبریں یہ ہیں کہ پاکستان پر سی پیک کے معاہدے سے نکلنے یا انحراف کا دباؤ ہے ۔ اگر پاکستان اس دباؤ میں آ گیا تو بارگیننگ پوزیشن سے واپس جانا پڑے گا اور وہ صورت حال پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گی کیونکہ امریکا اس خطے میں اپنی نئی فوجی مہم جوئی میں پاکستان کو دھکیلنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

معیشت درست ہونی چاہئے لیکن پاکستان کو انارکی سے بچنا چاہئے۔ کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن سیاسی تصادم سے بچنا چاہئے۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہئے لیکن کشمیری عوام اور پاکستان کی 72 سالہ پوزیشن سے پسپائی سے بچنا چاہئے ۔ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں پاکستان کو وسیع تر معاملات پر امریکا اور اس کے حواریوں سے بات چیت جاری رکھنی چاہئے لیکن حاصل کردہ بارگیننگ پوزیشن کو برقرار رکھنا چاہئے۔ ہم سے پہلے عرب ممالک کی تباہی کے ’’ماڈل‘‘ ہمارے سامنے ہیں۔ ان کا گہرا تجزیہ کرکے محتاط طریقے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بڑے کام کرتے ہوئے بیک فائرز سے بچنا ہے۔

تازہ ترین