• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر بندر کے ہاتھ استرا لگ جائے اور وہ اس کا دو ڈھائی سال تک بے دریغ استعمال کرتا جائے تو کسی نہ کسی نے تو کٹنا ہے۔ یہی کچھ امریکہ میں ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ جو صدارت کا استرا لگا اور جس طرح انہوں نے ساری دنیا کے ساتھ تجارتی جنگ جاری رکھی اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ساری دنیا کی معیشتیں تو زوال پذیر ہوئیں ہی لیکن اب تو امریکہ میں بھی ہر طرف سے کساد بازاری (recession)کی پیشگوئیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ امریکہ کی پچھلے گیارہ سال کی معاشی بحالی سے غرباء اور درمیانے طبقے کا بہت بڑا حصہ تو کبھی بھی فیض یاب نہیں ہوا تھا لیکن اس سے قطع نظر اعداد و شمار بہترین معیشت کا بھرم بنائے ہوئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہر شعبے میں غیر مقبولیت کی سطح آسمانوں پر رہی لیکن معاشی مضبوطی کے معاملے میں اعداد و شمار ان کی انا کے پہیوں میں ہوا بھرتے رہے اور وہ استرا چلانے کو مشغلہ بنا کر شب و روز اندرونی اور بیرونی مخالفوں کا جو کچھ کاٹ سکتے تھے، کاٹتے رہے۔ اس سارے عرصے میں صاحبان عقل و فہم ان کی بڑھکوں کو حادثاتی خوش بختی شمار کرتے ہوئے حقیقت کی نشاندہی کرتے رہے لیکن وہ استرا چلانے کی لت میں کچھ سننے یا سمجھنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ 2008میں جارج ڈبلیو بش کی صدارت کے آخری دور میں امریکہ شدید ترین کساد بازاری کا شکار ہو چکا تھا: ملک کے مالیاتی ادارے زمین بوس ہو رہے تھے اور پورے سرمایہ داری نظام کی بقا خطرے میں تھی۔ باراک اوباما کے آٹھ سالہ دور میں معیشت کو قدم بقدم بحال کیا گیا اور ان کی رخصت کے وقت ترقی اپنے عروج پر تھی۔ یہ ترقی ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد بھی جاری رہی اور وہ اس کو اپنی کامیاب معاشی پالیسیوں کا نتیجہ بتاتے رہے حالانکہ یہ صرف پچھلے دور کی لہر تھی جس کو رُکنے یا ختم ہونے کے لئے کچھ وقت لگنا تھا۔ اب ان کا بھانڈہ پھوٹ رہا ہے اور پچھلے کئے کرائے پر جو پانی پھر رہا ہے اس پر ہمیں میاں محمد بخش کا شعر یاد آ رہا ہے:

مر مر اک بناون شیشہ مار وٹا اک بنھدے

تھوڑے ہُندے اس دنیا وچ قدر شناس سخن دے

(کچھ جان لیوا عمل سے گزرتے ہوئے شیشہ بناتے ہیں اور کچھ ایک پتھر سے اس کو توڑ دیتے ہیں۔ اس دنیا میں سخن گوئی کے قدر دان بہت کم ہوتے ہیں)۔

پاکستان کی صورتحال امریکہ سے کافی مختلف ہے کیونکہ یہاں 72برسوں سے کچھ زور آزماؤں کے ہاتھ میں استرا آیا ہوا ہے اور وہ ہر دور میں اس کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔ ان برسوں میں کھوپڑیوں کے انبار بھی لگے اور زخم دریدہ عوام کے انبوہ منہ پر پٹیاں باندھ کر اپنی زندگیاں گزار گئے لیکن پھر بھی خلقت ایک لاحاصل صحرا میں بھٹک رہی ہے۔ یہ تو ہماری ’اداس نسلوں‘ کا قصہ پارینہ ہے لیکن روز بروز کی مالی مشکلات کا سامنا کرنے والوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ عام شہریوں کے لئے مہنگائی اور معاشی بد حالی کے گہرے گردو غبار میں سانس لینا بھی دو بھر ہوتا جا رہا ہے۔

اس اخبار کے ایک اداریے میں پچھلے دنوں گورنر اسٹیٹ بینک کے امید افزا بیان پر جو زیر لب کہا گیا وہ ہمیں یوں سنائی دیا کہ ’’خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘۔ اداریے میں درد مندانہ اپیل کی گئی کہ حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کیلئے انتظامی اقدامات کرنا چاہئیں یعنی کہ تاجروں کو اشیاء مہنگی بیچنے سے روکنا چاہئے۔ ہمیشہ مہنگائی کو روکنے کیلئے درمیانے طبقے کے دانشور حکومت سے یہی مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن صاحب یہ سرمایہ دارانہ معیشت ہے جس میں منڈی اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی پلانٹ لگانے اور شہباز شریف کے تنوروں پر سستی روٹی بیچنے سے نہ مہنگائی رکی اور نہ ہی حکومت اس کو روک سکتی ہے۔ آزاد منڈی میں مہنگائی کے دو بنیادی اسباب ہیں: اول اشیاء کی رسد طلب سے کم ہوتی ہے اور دوسرے حکومت اپنا کام چلانے کے لئے کرنسی چھاپ چھاپ کر پیسے کی قدرو قیمت میں گراوٹ لاتی جاتی ہے۔ پاکستان کی صورتحال میں یہ دونوں عناصر پورے کروفر سے موجود ہیں اور جب تک ایسا ہے کوئی مائی کا لال (نیزے کی نوک پر بھی) مہنگائی پر قابو نہیں پا سکتا۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر جب بہتر مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں تو ایک لمحے کے لئے یہ بھی بتا دیں کہ وہ کونسے جنتر منتر سے یہ سارا کچھ کر کے دکھائیں گے؟ پچھلے سال پاکستان کی فصلوں کی پیداوار میں 6.5فیصد کمی ہوئی تھی، جیننگ فیکٹریوں میں 19فیصد سے زیادہ پیداوار/ سرمایہ داری میں کمی آئی تھی، مینو فیکچرنگ سپاٹ تھی اور باقی شعبوں کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں تھا۔ غرضیکہ حقیقت پسندانہ جائزے کے مطابق معیشت میں سکڑاؤ آیا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ جب پیداوار میں کمی آئے اور نوٹوں کی چھپائی کا عمل تیز تر ہو جائے تو مہنگائی کو بڑھنے سے کون روک سکتا ہے؟ اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک یا مشیر خزانہ حفیظ شیخ ہمیں بتائیں کہ وہ اس سال ایسا کیا کر رہے ہیں کہ یہ کمی اضافے میں تبدیل ہو جائے گی؟ بظاہر تو کاروباری اعتماد بھی کافی گہری ڈبکی لگا چکا ہے یعنی ممکنہ سرمایہ کاروں کو مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ ایسے ماحول میں بہتری کیسے اور کیوں آئے گی؟

وزیراعظم عمران خان واشنگٹن میں اپنے کامیاب اور جوش و خروش سے بھرپور جلسے میں کنٹینر والی تقریر کر کے چلے گئے اور اس سے ایسا بالکل نہیں لگا کہ طرز حکمرانی میں کوئی بنیادی تبدیلی آنے والی ہے۔ سیاستدانوں کو جیل میں بند کرنے سے شاید قوم کا اخلاقی معیار تو بلند ہو سکتا ہے (دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے) لیکن اس سے معیشت ہرگز بحال نہیں ہو سکتی۔ جب سیاسی عمل کا مفروضہ ہی غلط ہو تو بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے

ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین