• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’راشن کارڈ‘‘ دیگر سرکاری امور میں بھی یہ بڑی اہمیت کا حامل تھا

عبدالغفور کھتری 

چاہئے تو یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھ کر دنیا جنگوں سے تائب ہو جاتی، مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا، اور بہت جلد طاقت کے نشے اور جنگی جنون نے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی طرف دھکیل دیا۔ اب ہرطرف جنگ تھی اور اس کی تباہ کاریاں۔

ساحر لدھیانوی نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ:

’’جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی،

جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے

ٹینک آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں،

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے‘‘

اور وہی ہوا، فصلیں اگانے والی دھرتی مسلسل بمباری سے بانجھ ہو گئی، جسم و جاں کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک مہیا کرنے والی دھرتی ماں کو بارود اور آگ کا آنچل اوڑھا دیا گیا۔ دنیا کے چاروں کونوں میں بیٹھے ہوئے اس کے اپنے ہی بیٹے اسےخون میں نہلا رہے تھے۔ کھیت اور کھلیان راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اور یوں دنیا بھر میں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہو گئی۔

تاج برطانیہ کے ماتحت محکوم ہندوستان گوکہ براہ راست بمباری کی زد میں نہیں تھا، مگر خود برطانیہ اس جنگ میں اتحادی ملکوں کا اہم فریق تھا۔ برطانوی اور اتحادی ملکوں کی زراعت کی تباہی کے بعد ہندوستان کی زرعی اجناس سے لدے بحری جہازوں کا رخ جب اس پارہونے لگا تو، یہاں کھانے پینے کی اشیاء سے بھرے بازاروں میں قلت کا سایہ منڈلانے لگا۔

اب خوراک کی اس قلیل مقدار کو ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکٹنگ سے بچانے اور پورے ہندوستان کی رعایا تک پہنچانے کے لئے برطانوی حکومت نے یہاں ’’راشننگ ‘‘ کا نظام رائج کیا۔

شہروں میں وارڈکی سطح پر راشن ڈپو قائم کر کے ہر خاندان کے سربراہ کے نام ایک راشن کارڈ جاری کیا گیا۔ جس میں بالغ، نابالغ افراد اور شیر خوار بچوں کا اندراج ہوتا، اس کارڈ کے ذریعے وہ خاندان اپنے علاقے کے مخصوص راشن ڈپو سے قلت شدہ اشیاء نقد رقم کے عوض ماہانہ کوٹے کے حساب سے ہی خرید سکتا تھا۔ آٹا ، چاول، گھی، تیل اور چینی اس فہرست میں شامل تھیں بعد میں کپڑے کی قلت کے باعث اسے بھی اس فہرست میں شامل کر دیا گیا۔

1939ء میں شروع ہونے والی اس دوسری جنگ عظیم کے 1945ء میں اختتام کے بعد حالات اپنی نارمل روٹین کی طرف واپس لوٹنے لگے۔ دھرتی پھر شفیق ماں کی طرح اپنے بچوں کی خطائوں کو معاف کرتےہوئے اپنی محبت نچھاور کرنے لگی۔ لہلہاتے کھیتوں کا منظر دوبارہ لوٹ آیا اور غذائی اجناس کی قلت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ اب صرف چینی ہی راشن کارڈ پر رہ گئی۔

آزادی کے بعد بھی پاکستان میں چینی کی طلب کے مطابق ملیں نہیں لگ سکیں۔ چند ملوں کی پیداوار اور محدود پیمانے پر درآمد شدہ چینی کی راشننگ جاری رکھی گئی۔ 1965ء میں بھی چینی راشن کارڈ کے ذریعے راشن ڈپو سے ماہانہ کوٹے کے حساب سے ملتی ہے۔ ہر بالغ فرد کے لئے تین پائو (750گرام) اور ہر شیر خوار بچوں کے لئے آدھا سیر (450 گرام) کا ماہانہ کوٹہ مقرر تھا۔

یوں بھی برصغیر کا معاشرہ چینی کے منظر عام پر آنے سے قبل کھانے پینے کی اشیاء میں میٹھے ذائقے کے لئے گڑ کے استعمال کا عادی تھا۔ محدود پیمانے پر چینی کی دستیابی اور گڑ کے مقابلے میں مہنگی ہونے کے باعث بیشترگھروں میں چائے میں گڑ ہی کی بنتی تھی۔

چینی بنانے کی کچھ چھوٹی ملیں پاکستان میں قائم ہوئیں لیکن ابتداء میں چینی مکمل سفید نہیں تھی، بلکہ ہلکی بھوری تھی، اور اس میں گڑ کا تھوڑا ذائقہ بھی موجود تھا۔ یہ برائون شوگر کھلی مارکیٹ میں ’’پاکستانی چینی‘‘ کے نام سے وافر مقدار میں دستیاب تھی۔

کراچی کی مارکیٹوں میں گڑ اور چینی کے ریٹ یہ تھے گڑ چھ سے آٹھ آنے (37 پیسے سے 50 پیسے) کلو، پاکستانی چینی بارہ آنے سے چودہ آنے (75 پیسے سے 87 پیسے) فی سیر اور سفید چینی ایک روپیے دو آنے فی سیر ملتی تھی۔

کراچی میں پہلا راشننگ دفتر نیوچالی کے علاقے میں 1942ء میں قائم ہوا، اور اشیاء صرف کی سپلائی کا آغاز انہیں دنوں کھارادر کے ایک راشن شاپ سے شروع کیا گیا۔

راشن کارڈ غذائی اجناس کی خریداری کے ساتھ ساتھ خاندان کا اجتماعی شناختی کارڈ بھی سمجھا جاتا تھا۔ علاقے میں مستقل سکونت کے ثبوت اور دیگر سرکاری امو ر میں راشن کارڈ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔

چونکہ کراچی کے لوگوں کو ایک عرصے تک آٹا، چاول، گھی اور تیل راشننگ سسٹم کے تحت ملتا رہا، لہٰذا راشننگ سسٹم کے ختم ہونے کے بعد بھی آج تک کراچی کے باسی مذکورہ اشیاء کی خریداری کو ’’راشن کی خریداری ہی کہتے ہیں۔

کتاب ’’کراچی کی کہانی تاریخ کی زبانی‘‘ سے ماخوذ

تازہ ترین