• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مقبوضہ کشمیر، نماز جمعہ پر پابندی، مظاہروں سے بچنے کیلئے فوج اور پولیس نے راستے بند کردیئے، پیلٹ گن اور آنسو گیس کے شیل فائر، سیکورٹی فورسز سے مظاہرین کی جھڑپیں

کشمیر میں احتجاجی مظاہرے 


سرینگر (ایجنسیاں، جنگ نیوز) مقبوضہ کشمیر میں قابض انتظامیہ نے مظاہروں کو روکنے کیلئے نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی عائد رکھی، بھارتی فوج اور پولیس نے لوگوں کو نماز جمعہ کے بعد سرینگر کے علاقے سونہ وار میں اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ سے روکنے کیلئے کرفیو اور دیگر پابندیاں مزید سخت کردی تھی،مساجد جانے والے راستے بند کردیے، قابض انتظامیہ نے جن علاقوں میں کرفیو میں عارضی نرمی کی تھی وہاں بھی دوبارہ پابندیاں عائد کردیں، سری نگر کو جیل میں تبدیل کردیا گیا،جگہ جگہ خار دار تاریں اور رکاوٹیں کھڑی کردیں،عرب ٹی وی کے مطابق سرینگر میں ایمبولنسز اور بیمار افراد کو اسپتال جانے کی اجازت بھی نہ دی گئی ،مقبوضہ وادی میں کرفیو کے 19ویں روز بھارتی فورسز کی بھاری نفری اور پابندیوں کے باوجود صورہ میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین نے پاکستان اور کشمیر کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے ، مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں، پیلٹ گن اور آنسو گیس کا شدید استعمال،برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے انڈین سکیورٹی فورسز کو پیلٹ گن اور آنسو گیس کے شیل فائر کرتے جبکہ مظاہرین کو سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرتے دیکھا گیا، جھڑپیں دو گھنٹے تک جاری رہیں جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی،صورہ میں مقامی افراد نے مرکزی بازار میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کا داخلہ روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں، اس دوران مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے جس پر درج تھا ’اقوام متحدہ جاگو ‘‘، مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہم بھارتی تسلط کے خاتمے تک احتجاج جاری رکھیں گے، دوسری طرف سرینگر کی مرکزی جامع مسجد درگاہ حضرت بل سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بتایا کہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ آج یہاں نماز جمعہ کے کسی بڑے اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی اور صرف مقامی افراد کو یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی جبکہ اس دوران لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت بھی نہیں دی گئی، دوسری جانب مقبوضہ کشمیر بالخصوص سرینگر سے رات گئے گھروں پر بھارتی فورسز کے چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ، جمعرات اور جمعہ کی رات گئے سرینگر میں گھروں سےمزید 10لڑکوں کو گرفتار کرلیا گیا، مقبوضہ کشمیر میں لوگوں نے ہندو توا کی باوردی اور سادہ لباس میں ملبوس فورسز کی طرف سے کشمیری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی تذلیل اور آبروریزی سے تحفظ کیلئے ہر گلی کوچے میں مقامی کمیٹیاں بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے، کشمیر میڈیاسرو س کے مطابق کمیٹیاں بنانے کا کام بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر ہندو فرقہ پرست قوتوں کے ان توہین آمیزبیانات کے بعد شروع کیا گیا جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی ہندو مقبوضہ کشمیر جا کر آباد ہوں اور وہاں کشمیری خواتین کے ساتھ شادیاں کریں، قابض انتظامیہ نے جمعہ کے روز مزید 30کشمیری قیدیوں کو اتر پردیش کی آگرہ سینٹرل جیل منتقل کردیا ہے ، اس سے قبل 70کشمیری رہنمائوں کو بھارت کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔مقبوضہ علاقے میں ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ اور مواصلات کے دیگر تمام ذرائع بھی مسلسل معطل ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ علاقے کا بیرونی دنیا سے رابطہ بالکل معطل ہے۔ ادھر سیّد علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق سمیت تمام حریت رہنما گھروں اور جیلوں میںنظر بند ہیں۔ سیکڑوں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سمیت چھ ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ حراست میں لیے جانے والوں میں بھارت نواز رہنما فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی، غلام احمد میر ، انجینئر عبدالرشیداور شاہ فیصل بھی شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی جیلوں اور تھاتوں میں اب مزید لوگوں کو رکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے لہٰذاحراست میں لیے گئے بیسیوں افراد کو عارضی حراستی مرکزوں میں رکھا گیا ہے۔ مسلسل محاصرے کے باعث مقبوضہ وادی کو اس وقت بچوں کی غذا اور زندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی سخت قلت کا سامناہے۔

تازہ ترین