• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی پارٹی شروع نہیں ہوئی

ابھی تو کھانا کھلا ہی نہیں کہ دیگوں میں پلائو ہے نہ زردہ، رائتہ پیش کر دیا گیا جسے لوگ چاٹ چاٹ کر بھوک چمکا بیٹھے ہیں، ہنیاں مونیاں بھی ہو چکیں بلکہ دو بار ہو چکیں ولیمہ ہنوز پینڈنگ ہے، کسی نے پوچھا کس کی شادی کی بات کر رہے ہو ہم نے عرض کیا کسی کی بات نہ پوچھو کروڑوں ’’کیڑوں مکوڑوں‘‘ کی بات کر رہا ہوں جنہیں گری پڑی بریانی کا دانہ اٹھا کر بل میں لے جانے کی ہمت نہیں پڑتی، اس نے کہا: وہ کیوں؟ میں نے کہا: بل میں بجلی، گیس، پانی کے بل پڑے ہوئے ہیں۔ ایک بزرگ کو دیکھا، دن کو لالٹین لے کر وہ شخص ڈھونڈ رہا تھا جو سارا مہینہ صرف 300یونٹ استعمال کرتا ہے، کیا ایک بلب، فریج، پنکھا اور استری چل سکتی ہے؟ ہم اتنی سی گزارش کرتے ہیں کہ مہاراجا لاہور نہر کے اس پار نہیں اِس پار بھی دیکھ لیں جہاں دل بعد میں جلتا ہے سلامت پورہ میں کوڑا مافیا کوڑا پہلے جلاتا ہے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی چھوٹی گاڑیاں تو کجا کسی گلی محلے میں پیلا کوڑا دان دکھائی نہیں دیتا، کبھی کوڑا کوتوال نے اس ظلم کا نوٹس لیا ہے یا میڈیا پر مسکین بن کر سب اچھا کی تصویر پیش کر دیتا ہے، مرغی کے دو نرخ چل رہے جبکہ مرغی ایک ہی چل رہی ہے، اشیائے خور و نوش کا نوٹس اشیائے خورد برد کے کوتوال کی صعوبتیں کس دیس بستیاں ہیں، کھمبوں سے آزاد تاروں کو جا بجا دیکھا۔ ہم نے مختصر احوال صرف ایک شہر کی نہر کے اِس پار کا بیان کر دیا باقی جگ جگ جیوے پورے وطن کو اسی پر قیاس کر لیں، وزیراعلیٰ پنجاب ازرہِ کرم اپنی توجہ نہر کے پار بھی دیں مگر اصل حسین چہرہ تو اس پار بستا ہے جہاں پرانا لاہور بھی ہے اور اتنا ہی پرانا نیا لاہور بھی آباد ہے، یہ ضرور بتا دیں کہ بیاہ کو ایک سال ہو چکا ولیمہ کب ہو گا، کھانا کب کھلے گا؟

٭٭٭٭

مسٹر ٹرمپ اور ٹرمپ کارڈ

ٹرمپ فرماتے ہیں میرے دونوں گہرے دوست ایک دوسرے کے گہرے دشمن ہیں (بھلا میں ثالثی کروں تو کیسے کروں؟ یہ کیا کم ہے کہ آپ نے دو دوست کہہ دیا، وہ بھلے آپس میں دشمن ہی رہیں، ہمارا ایک غلط سلط یا ٹھیک ٹھاک خیال ہے کہ سفید انتہا پسند اور کالے انتہا پسند کا پرانا گٹھ جوڑ ہے، ہمیں بھی ساتھ لگا لیا حالانکہ ہم کم کالے ہیں، ہمارے حقیقی گہرے دوست کے ساتھ ٹرمپ دشمنی کی ہر روز نئی خبر آتی ہے، بھلا کیسے ممکن ہے کہ سمندر سے گہری دوستی اور پانی سے خالی سوئمنگ پول میں پڑی مری مچھلی برابر ہوں، امریکہ کا افغانستان میں گدھا پھنسا ہوا ہے اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہمیں معاف کرنا ماہر خرکار سمجھتا ہے، جب اس کا کام ہو گیا تو وہ دو دوستوں سے اپنا ایک پہلو خالی کرا لے گا، بھارت کے پاس پہلے روس اور اب جدید ترین اسلحہ امریکہ کا دیا ہوا ہے، کشمیر میں کم از کم کرفیو ختم اور فوڈ سپلائی جاری کرنا تو مسٹر ٹرمپ کے لئے کچھ مشکل نہ تھا مگر اس نے صرف مذاکرات کی تلقین پر ہی اکتفا کر کے جان چھڑا لی، اب کشمیر کو کسی محمد بن قاسم اور اس کے سسر حجاج بن یوسف کی ضرورت ہے، ٹرمپ نے جو ٹرمپ کارڈ کھیلا ہے اس کے ساتھ ہی مودی نے 370اڑا کر رکھ دیا، اٹوٹ انگ کہتا تھا سو بنا لیا اور ہم ؎

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا چلا

آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

امریکہ کی جنگ لڑی، ہمارا خرچہ بھی نہ دیا، اب عبوری دوست بنے امریکی فوجیں محفوظ طریقے سے نکالنے میں مدد کے لئے، یہ تو ایسے ہی ہے کہ حکمران پکوڑے بیچنے والے کی ریڑھی پر پکوڑے کھانے چلا جائے، ریڑھی والا اس پر پھولا نہ سمائے اور پیسے بھی نہ لے اور سات نسلوں کے گزارے کے لئے اس ایک وقفے پر گزارہ کر لے۔

٭٭٭٭

اے پی سی بر وزن او آئی سی

کیا وہ مولانا کی اے پی سی تھی

تمبو لگائے بھی مرا بھلا نہ ہوا

اور مزید برآں یہ کہ؎

او آئی سی، او آئی سی

کشمیر دا سُن کے گھبرائی سی گھبرائی سی

مولانا فضل الرحمٰن نے بڑا زور لگایا عوام کے بھلے کے لئے مگر عوام تو کجا خواص بھی رخصت پر چلے گئے مگر ہمت نہ ہاری آخری گیت سنانے کے بعد ایک شعر سنانے کا اعلامیہ سنا کر اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے ڈیرہ چلے گئے، ان کا دکھ بہت گہرا ہے، ان سے اے پی سی کرانے والوں کو بھی علم ہو چکا ہے، اس لئے ان سے بھی اب دیکھا نہیں جا رہا، واقعی یہ عالم زخم کی گہرائی کا دیکھا نہ جائے، ستاون اسلامی ممالک کے حقوق کی محافظ او آئی سی فیر چلی گئی سی، اگر یہ تنظیم، منظم ہوتی، منظوم نہ ہوتی تو آج اس کے ایک اس حکم پر کہ تمام اسلامی ممالک بھارت سے قطع تعلقی کر لیں گے اگر اس نے کشمیر میں ظلم بند کر کے طے شدہ قرار دادوں پر عملدرآمد نہ کیا، تو دنیا دیکھتی کہ مودی کیسے کشمیر کی جانب میلی آنکھ سے آنکھ بھر کے دیکھتا، اے پی سی نے غریب عوام کے لئے ایک عدد مختص اے پی سی کا اعلان کیوں نہیں کیا؎

اے پی سی بھی او آئی سی کے ڈھب سیکھی ہے

اپنے مفاد کے لئے کچھ ہے غریب عوام کے لئے کچھ ہے

٭٭٭٭

ایک چپت اور مری جان!

....Oخبر ہے: بچت مہم، سرکاری گاڑیوں کی خریداری، نئی نوکریوں پر پابندی عائد۔

اس انوکھی لاڈلی بچت کی شان میں عرض ہے؎

اک چپت اور مری جاں

ابھی جاں باقی ہے

....Oوزیراعظم: ماضی کی بدانتظامی نے کراچی کا روایتی حسن تباہ کیا۔

لگتا صرف ایک ہی ’’ٹینس‘‘ سیکھا تھا، حال اور مستقبل کے قریب نہیں گئے۔

....Oاقوام متحدہ:پریانکا چوپڑا نے جنگ کی حمایت میں بیان دیا وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی بھی بیان دے سکتی ہیں۔

وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اقوام متحدہ کے خلاف کوئی بیان نہیں دے سکتی کیونکہ وہ امن کی سفیر ہے، البتہ جنگ سے امن پیدا ہوتا ہے اس لئے جنگ کے حق میں بیان ذاتی ہے، ایسی سفیر بے پیر کو اقوام متحدہ نے کیوں سینے سے لگا رکھا ہے۔

تازہ ترین