• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہینہ پہلے میری نظروں سے ایک چھوٹی سی سرخی گزری کہ دنیا بھر کے بدترین ٹریفک والے شہروں میں لاہور 31ویں سے 83ویں نمبر پر آگیا۔ یعنی ٹریفک نظام میں بہتری آئی ہے۔ مجھے یہ خبر اس وقت تک ہضم نہیں ہوئی جب تک میں نے اس کام کے لئے متعین ادارے ورلڈ ٹریفک انڈکس کی رپورٹ پڑھنے کے بعد تسلی نہ کر لی۔ 2019ء کی اس رپورٹ میں 211ممالک کی ٹریفک کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔ میں نے مزید تسلی کے لئے 2018ء کی ایسی رپورٹ کو بھی اسٹڈی کیا جس میں 30ممالک ایسے تھے جن کی ٹریفک پاکستان سے بھی بدترین تھی۔ اس تفصیلی رپورٹ کے مطابق دنیا کی بدترین ٹریفک مینجمنٹ میں سری لنکا پہلے، ڈھاکہ دوسرے اور کولکتہ تیسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ ممبئی چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ رپورٹ پڑھنے کے بعد کچھ مایوسی بھی ہوئی کیونکہ بعض اوقات انسان کے دماغ میں کچھ شہروں اور ملکوں کے بارےمیں ایک بہت مثبت تاثر ہوتا ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی منفی رپورٹ پڑھنے کے بعد مایوسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر تہران میں نے خود وزٹ کیا ہے لیکن یہ بدترین ٹریفک مینجمنٹ میں دنیا بھر میں دسویں نمبر پر ہے۔ استنبول 12ویں نمبر پر اور لاس اینجلس 9ویں نمبر پر، اسی طرح کچھ شہر اور ممالک میں بدترین ٹریفک تصور میں ہی نہیں آتی جیسا کہ ماسکو 21ویں، شنگھائی 36ویں، ٹورنٹو 42ویں، سڈنی 43ویں، دبئی 46ویں، نیویارک 78ویں نمبر پر ہے اور تو اور لندن 65ویں جبکہ کراچی 63ویں نمبر پر ہے۔ البتہ کیا بات ہے سوئٹزر لینڈ کے شہر بسل کی جس کی ٹریفک بہتری میں دنیا بھر کے 211شہروں میں پہلے، آسٹریا کا شہر ویانا دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جرمن اور سویڈن کے شہروں فرینکفرٹ اور گوتھن برگ کا شمار بھی بہترین ٹریفک مینجمنٹ کے شہروں میں ہوتا ہے۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ لاہور کی ٹریفک مینجمنٹ میں بہتری آئی ہے لیکن کچھ حیرانی کی بات بھی ہے کیونکہ میں نے گزشتہ دو برسوں میں لاہور کی تین ہزار سے زیادہ کلومیٹر سڑکوں پر موجود 700اشاروں اور ٹریفک کی صورتحال کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر نہ صرف غلطیوں کی نشاندہی کی بلکہ ٹریفک سسٹم میں بہتری لانے کے لئے تجاویز بھی دیں۔ آج جب جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے جو گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں بہتری دیکھی گئی ہے اس کی وجہ میرے خیال میں روڈ سیفٹی کا شعور پیدا کرنا ہے۔ لاہور کے اندر ہیلمٹ پہننے کی پابندی تھی، اسی وجہ سے ہیڈ انجری کیسز میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ لاہور کے اندر تجاوزات کے خلاف آپریشن، ون وے ٹریفک اور رانگ پارکنگ میں زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانے اور لائسنسنگ و چالان سسٹم میں جو کچھ حد تک شفافیت آئی ہے اس سے لاہور ٹریفک مینجمنٹ میں بہتر پوزیشن پر آگیا ہے کیونکہ دنیا بھر کی ٹریفک کو ماپنے کے یہی انڈیکیٹرز ہیں۔ اس کے لئے سٹی ٹریفک پولیس، لاہور کے شہری اور میڈیا مبارکباد کا مستحق ہے۔

ای چالان سسٹم، ناجائز تجاوزات کے خلاف مہم اور ہیلمٹ پہننے کی مہم میں میڈیا نے بڑا ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سٹی ٹریفک پولیس کے چیف عزیزم کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک کے خصوصی وژن اورمحنت کا یہ نتیجہ ہے۔ انہیں لاہور کی ٹریفک کو بہترین انداز میں مینج کرنے پر مبارکباد دینے کیساتھ ساتھ کچھ چند تجاویز دینا ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ای چالان سسٹم متعارف کروایا لیکن یہ ابھی پوری طرح انصاف و مساوات سے نہیں چل رہا۔ لوگوں کو بڑے تحفظات ہیں مگر وقت نہ ہونے کے سبب وہ قانونی جنگ لڑنے کے بجائے جرمانہ ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز اور ٹریفک مینجمنٹ سے منسلک افراد کی جس معیار کی تربیت کی ضرورت ہے، وہ ابھی ان کے رویوں میں نظر نہیں آتی۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جس طرح عام لوگوں کو پکڑا جاتا ہے اور سرکاری عہدیداروں، وہیکلز اور پولیس جو قوانین کی پاسداری کو اپنی توہین سمجھتے ہیں،کو نہیں پکڑا جاتا، اس کی ہر روز سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں کیونکہ جو روزانہ لاکھوں ٹریفک سنگلز یا رولز کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، ان میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے شہریوں میں بداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی ٹریفک قوانین کا احترام مجبوراً کرتے ہیں۔ اصل ضرورت ان کے دلوں میں ٹریفک قوانین کا احترام پیدا کرنا ہے اور وہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ اسی طرح سٹی ٹریفک پولیس اور دیگر محکموں خصوصاً واپڈا، ٹیلی فون، ورکس وغیرہ کے درمیان کوآرڈی نیشن کو بہت زیادہ بڑھانے اور بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے عدم تعاون کی وجہ سے ٹریفک مینجمنٹ میں بہتر ی لانا ایک طرح سے ناممکن ہے۔

رپورٹس کے مطابق پنجاب کی صوبائی سب کابینہ کمیٹی برائے قانون نے ’’ٹریفک مینجمنٹ ریفارمز صوبائی وہیکلز ترمیمی بل 2019ء‘‘ تیار کیا ہے۔ جس کی حتمی منظوری کابینہ کے اجلاس میں دی جائے گی۔ میری رائے میں ریفارمز کے نام پر جو قانون تیار کیا گیا ہے اس میں سوائے جرمانہ بڑھانے کے کوئی ریفارمز نہیں، جس کے نفاذ سے ممکن ہے کہ حکومت کے ریونیو میں تو اضافہ ہو جائے، عوام پر جبری قانون کی تعداد بڑھ جائے مگر ان کے دلوں میں قانون کا احترام پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی مستقل بنیادوں پر ٹریفک میں بہتری آ سکے گی۔ اس لئے ٹریفک سے متعلق اب تک جتنے قوانین موجود ہیں یا جو وقتاً فوقتاً آرڈیننس جاری کئے جاتے رہے ہیں ان سب کو یکجا کرکے ان کا تفصیلی جائزہ لینا چاہئے۔ ساتھ ساتھ بہترین ٹریفک نظام والے ممالک کے قوانین اور رولز کا تقابلی جائزہ لے کر کوئی ’’ٹریفک ریفارمز بل ترتیب دینا چاہئے۔ اس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنائی جا سکتی ہے جو اس حوالے سے اپنی سفارشات دے۔

تازہ ترین