• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عورت کے لیے ماں بننا جہاں فخر و امتیاز کا باعث ہے، وہیں حمل ٹھہرنے سے زچگی تک کی مدّت نہایت احتیاط اور توجّہ کی متقاضی ہے۔چوں کہ شکمِ مادر میں ایک نئی زندگی نموکے مختلف مراحل طے کررہی ہوتی ہے،تو حاملہ کو بھی کئی طبّی تبدیلیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اگر اس دوران وہ اپنی صحت سے غفلت برتے، کھانے پینے اور آرام وغیرہ کا خیال نہ رکھے، تو بظاہر معمولی علامات بھی کسی پیچیدگی کی صورت اختیارکرسکتی ہیں۔ تاہم، جو خواتین ہر لحاظ سے اپنا خیال رکھتی ہیں، انہیں وضعِ حمل کے وقت اوردورانِ زچگی بہت کم پیچیدگیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔دورانِ حمل سب سے عام تکلیف قبض کی ہے، جو زچہ و بچّہ دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ قبض کی بنیادی وجہ ہارمونز کی تبدیلی ہے، جس سے محفوظ رہنے کے لیے ریشے دار غذائیں استعمال کی جائیں۔ جیسے اناج،سبزیاں، پھل، پھلیاں اور دالیں وغیرہ۔زیادہ سے زیادہ پانی پئیں اور ہلکی پھلکی ورزش معمول کا حصّہ بنالیں۔ حمل کے دوران ایک اور تکلیف جسم کے نچلے حصّے میں درد رہنا ہے، جو اچانک اور شدّت سے اُٹھتا ہے۔یہ دردعام طور پر رات کے وقت پائوں کے عضلات میں جھٹکے کے سبب ہوتا ہے اورکبھی تو بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بچائو کے لیے مختلف ورزشیں(جن سے خون کی گردش بہتر ہو )مفید ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً روزانہ پائوں کو آٹھ سے دس بار پہلے کلاک وائز اور پھر اینٹی کلاک وائز گھمائیں۔بعد ازاں پائوں کے پنجے کو تیس سے چالیس بار بند کریں اور کھولیں۔یہ ورزش دِن میں ایک سے دو مرتبہ ضرور کی جائے۔ اگرجسم کے نچلے حصّے میں کسی وجہ سے یا اچانک درد ہو، تو پیروں کی انگلیوں کو جھٹکے سے اوپر ،نیچے کریں اور پائوں کے عضلات کا مساج کرلیں۔اس طرح درد کا احساس جلد کم ہوجائے گا۔

روزمرّہ زندگی میں خوراک کا خاص خیال رکھیں، کیوں کہ بعض اوقات جسم میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سےبھی مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے۔اگر دماغ تک صاف خون کی ترسیل نہ ہوتو دماغ میں آکسیجن کی کمی واقع ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں دماغی عوارض مثلاً ڈیمینشیا وغیرہ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اورساتھ ہی چکر آنے کی بھی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ایسا اکثر تیزی سے اُٹھنے یا پیٹھ کے بل زیادہ دیر تک لیٹے رہنے کے سبب ہوتا ہے، لہٰذا جلدبازی میں اٹھنے اور بیٹھنے سے گریز کیا جائے۔نیز، اگر کھڑے ہونے کے دوران چڑچڑاپن محسوس ہو، تو فوراً بیٹھ جائیں اوراگر سوتے ہوئے اچانک آنکھ کھلنے پر مزاج چڑچڑا ساہو، تو سائیڈ تبدیل کرکے لیٹ جائیں۔ ایک اور عام مسئلہ خصوصاً رات میں کثرت سے پیشاب آنا ہے اور یہ شکایت زچگی تک برقرار رہتی ہے۔ بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ، تاہم اگر شام میں مشروبات کے زائد استعمال سے احتیاط برت لیں،تو شدّت میں کمی آجاتی ہے۔اگر یہ مسئلہ تکلیف کے ساتھ برقرار رہے، تو زیادہ بہترہے کہ معالج سے رجوع کیا جائے، کیوں کہ بعض اوقات یہ علامت کسی انفیکشن کی بھی ہوسکتی ہے۔ کئی خواتین میں زچگی کے بعد بال گرنے کی شکایت بڑھ جاتی ہے، جو پریشان کُن نہیں کہ دورانِ حمل ہارمونز کی تبدیلی کے سبب زائد بال اُگنے لگتے ہیں اور یہی زائد بال بچّے کی پیدایش کے بعد گرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح جِلد کی رنگت میں تبدیلی اور پیٹ پر ایک لکیرکا واضح ہونا عام طبّی مسائل ہیں،جو زچگی کے بعد ازخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

بعض اوقات حاملہ کو ضرورت سے زیادہ گرمی محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ہارمونز کی تبدیلی کی وجہ سے جِلد کی جانب خون کا دبائو بڑھتا ہے،جس کے نتیجے میں گرمی محسوس ہوتی ہے اور پسینہ بھی زائد آتا ہے۔ دِن میں کئی بارچہرہ، ہاتھ اور پاؤں تازہ پانی سے دھوئیں۔ایک تواس طرح گرمی کا احساس کم ہو گا ،دوم، خود کوتازہ دَم بھی محسوس کریں گی۔ نیز، ڈھیلے ڈھالے ملبوسات استعمال کریں۔ اسی طرح ماں بننے والی خواتین کو عموماًبات، بے بات زیادہ غصّہ بھی آتا ہے، لہٰذا جب کوئی بات گراں گزرے اور مزاج میں غصّہ دَر آئے،تو پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ نیز، اپنی غذا میں سبز پتّوں والی سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کے پاؤں بھی متوّرم ہوجاتے ہیں،جو عموماً بچّے کی پیدایش کے بعد اپنی اصلی حالت میں واپس آجاتے ہیں۔تاہم، اس پریشانی سے محفوظ رہنے کے لیے دیر تک کھڑے ہونے، کرسی یا صوفے وغیرہ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے اور زیادہ وزنی چیزیں اٹھانے سے اجتناب برتیں۔ نیز،اونچی ايڑی کا جوتا بھی ہرگز نہ پہنیں، اس کے بجائے آرام دہ اور فليٹ چپليں زیادہ موزوں ہیں۔ علاوہ ازیں، سَر اور کمر درد، جسم کے کسی حصّے سے خون آنا، بُلند فشارِخون، بدہضمی، سینے کی جلن، صُبح کے وقت بخار ہونا، نکسیر پھوٹنا، بواسیر، نیند نہ آنا، تھکن اور جوڑوں پر سُوجن سمیت دیگر علامات ظاہر ہونے پر ٹال مٹول کی بجائے فوری معالج سے رابطہ کریں کہ بروقت تشخیص اور بہتر علاج کسی بھی پیچیدگی سے محفوظ رکھنے میں کارگر ثابت ہوتا ہے، جب کہ معالج کے مشورے سے ہلکی پھلکی ورزش تو لازماً کریں۔حاملہ خواتین اپنی نیند کا خاص خیال رکھیں کہ نیند کی کمی بچّے کی دماغی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ فاسٹ فوڈ زکے بجائے پھل استعمال کیے جائیں،تو بہتر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ خواتین جو دورانِ حمل پھلوں کا زیادہ استعمال کرتی ہیں، ان کے بچّوں کا آئی کیو لیول دیگر بچّوں کی نسبت بُلند ہوتا ہے۔تاہم ایسے پھل جو ذیابطیس اور وزن میں اضافے کا سبب بنیں،وہ کم مقدار میں کھائیں۔دوران ِحمل چائے یا کافی کازائد استعمال تو شکمِ مادر میں پلنے والے بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے ہی ، لیکن بعض کیسز میں حاملہ کو بھی کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اپنی جِلد، بالوں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کریں۔ جلد سونے اور صبح سویرے بيدار ہونے کی عادت ڈالیں اور پُرسکون ماحول میں رہیں۔سب سے بڑھ کر نماز کی پابندی ضرور ی ہے،جب کہ ایک وقت مقرر کرکے اسلامی کتب خاص طور پر سیرتِ نبی پاکﷺ کا مطالعہ ضرور کریں۔

چوں کہ ماں بننے والی عورت ایک ساتھ دو زندگیاں جی رہی ہوتی ہے، تو باپ بننے والے شوہر پر بھی یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس ماں کا بھَرپور خیال رکھے اورخاص طور پر زچگی کے لیے معیاری اسپتال منتخب کرے،جہاں تمام تر ضروری طبّی سہولتیں میسّر ہوں۔ دُنیا کے ترقّی یافتہ مُمالک حمل کے دوران خواتین کو ہر لحاظ سے پُرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں، تاکہ ان کے مستقبل کے معمار ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند تولّد ہوں، تو ماں بھی ہر اعتبار سے صحت مند رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مُمالک میں زچگی کےلیے غیر ضروری آپریشنز کی شرح بھی بہت کم ہے۔ اس ضمن میں ہماری حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہر سطح تک حاملہ خواتین کو نہ صرف سہولتیں فراہم کی جائیں، بلکہ ان کی فراہمی یقینی بنانےکے لیے چیک اینڈ بیلنس کا ایک مربوط نظام بھی تشکیل دیا جائے۔

(مضمون نگار، حامد ہیلتھ کئیر سینٹر،کمیر شریف، ساہیوال میں فرائض انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین