• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استعفے کی پیشکش کی تھی، میری درخواست فل کورٹ سنے،جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد( رپورٹ ، رانا مسعود حسین )سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں زیر التواء اپنی آئینی درخواست میں نئی متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کے موجودہ چیئرمین/چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور دیگر چار ممبران کو ان کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی آئینی درخواست سمیت اس حوالے سے دائر کی گئی تمام دیگر فریقین کی آئینی درخواستوں کو سپریم کورٹ کے تمام اہل ججوں پر مشتمل فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کرنے کی استدعا کی ہے ،جسٹس فائزعیسیٰ نے کہاکہ ملاقات کے دوران میں نے چیف جسٹس سے کہاکہ کیا آپ کو میری دیانتداری پر اعتماد ہے یا نہیں ،اگر نہیں تو اس صورت میں ، میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے آپ کو اپنا استعفیٰ دے دیتا ہوں ،درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوموار کے روز ذاتی حیثیت میں دائر کی گئی 31صفحات پر مشتمل نئی متفرق درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ انہوںنے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرسماعت خصوصی ریفرنس نمبر 1/2019اور ریفرنس نمبر 427/2019کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت ایک آئینی درخواست دائر کررکھی ہے ،جو تاحال سماعت کے لئے زیر التواء ہے ،درخواست گزار نے بیان کیا ہے کہ انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری نے 17جولائی 2019کو اظہار وجوہ کے دو نوٹس بھیجے تھے ،جس پر انہوںنے 25 جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل کو آئین کے آرٹیکل 10A,19Aاور210(1)کے تحت معلومات تک رسائی کے حوالے سے دو درخواستیں بھجوائی تھیں تاہم ان پر آج تک کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے ،درخواست گزار نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور دیگر چار ممبران کی جانب سے ان کے خلاف دائر ریفرنس نمبر 427/2019 پر جاری کئے گئے فیصلے میں جس تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کے بعد وہ ان کے خلاف دائر ریفرنس کی مزید سماعت کے لئے نااہل ہوگئے ہیں ،اس لئے استدعا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ میںکئے جانے کے سپریم کورٹ کے ایک سابق فیصلے کی نظیر کی روشنی میں فاضل عدالت درخواست گزار کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست نمبر 17/2019اور اس حوالے سے دائر کی گئی تمام دیگر فریقین(پاکستان بار کونسل ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور عابد منٹو ایڈووکیٹ ) کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستوں کو سپریم کورٹ کے تمام اہل ججوں پر مشتمل فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کرنے کا حکم جاری کرے،جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اس متفرق درخواست کو بھی مرکزی کیس کے ساتھ منسلک کیا جائے ،کیونکہ یہ بھی اسی معاملے کاایک اہم ترین حصہ ہے ،درخواست گزار نے اپنے خلاف دائر ریفرنس میں عدلیہ کی آزادی، صدارتی ریفرنس سے متعلق صدر مملکت کی آزادانہ رائے اور ریفرنس کے بارے میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے متعلق بھی بہت سے اہم آئینی سوالات بھی اٹھائے ہیں،درخواست گزار نے اپنی درخواست میں حکومتی اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے ایک جج(بذات خوددرخواست گزار ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی نگرانی اورانکے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی اہم آئینی سوالات اٹھائے ہیں ،درخواست گزار نے متفرق درخواست میں اس ریفرنس سے آگاہی سے متعلق بیان کیا ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انہیں انٹر کام پر کال کرکے اپنے چیمبر میں بلایا اور ان کے سامنے دو لفافے رکھے ہوئے تھے ،جن میں سے انہوںنے کچھ دستاویزات نکال کر میرے سامنے رکھ کر صدارتی ریفرنس سے متعلق آگاہ کیا ،اس سے قبل مجھے اس حوالے سے کوئی علم نہیں تھا، میں نے جب دستاویزات کا جائزہ لیا تو مجھے وہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات دیکھ کر شدید دھچکا لگا ،جن کی بنیاد پر یہ ریفرنس قائم کیا گیا تھا ،جس پر میں نے چیف جسٹس کو اپنی اہلیہ اور خود مختار بچوں کی جائیدادوں سے متعلق تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیاتو انہوںنے مجھ سے ایک قانونی سوال کیا کی آیا کہ ،صدارتی ریفرنس کو بغیر سماعت کے ہی خارج کیا جاسکتا ہے یا نہیں ،درخواست گزار نے مزید کہا ہے کہ چیف جسٹس نے مجھے کہا تھا کہ یہ ملاقات آف دی ریکارڈ ہے،ملاقات کے دوران میں نے چیف جسٹس سے کہاکہ کیا آپ کو میری دیانتداری پر اعتماد ہے یا نہیں ،اگر نہیں تو اس صورت میں ، میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے آپ کو اپنا استعفیٰ دے دیتا ہوں ،جس پر انہوںنے میری ذات پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مجھے مستعفی ہونے کے لئے نہیں کہیں گے ،درخواست گزار نے کہا ہے کہ میں نے چیف جسٹس کو کہاتھا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کی دفعہ 116(1)(b)کے تحت میں اپنی خود مختار اہلیہ اور خود مختار بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات دینے کا پابند نہیں ہوں ،تاہم اگر کمشنر مجھے اس حوالے سے نوٹس جاری کرے تو اس صورت میں بھی میں صرف اپنے زیر کفالت اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیل دینے کا پابند ہوں ،جس پر انہوںنے اس دفعہ کا بغور جائزہ لینے کے بعد مجھ سے استفسار کیا تھا کہ کیا آپ کو کمشنر کا نوٹس موصو ل ہوا ہے تو میں نے بتایا تھا کہ مجھے کوئی نوٹس نہیں ملا ہے ، میں نے وہاں سے اٹھتے وقت یہ تاثر لیا تھا کہ چیف جسٹس کو بھی اس صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق تحفظات ہیں، درخواست گزار نے مزید موقف اختیار کیا ہے کہ میں چیف جسٹس کا دلی احترام کرتا ہوں اور ان کی فوجداری امور پر مہارت اور تجربے سے کئی بار فائدہ بھی اٹھا یاہے لیکن ریفرنس نمبر 427/2019کے فیصلے میں میرے بارے میں سخت تحقیر آمیز اور تلخ زبان استعمال کی گئی ہے جو ان کے میرے بارے میں تعصب کا مظہرہے ،درخواست گزار نے مزید لکھا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے اسی فیصلے میں میری درخواست میں وزیر اعظم عمران خان کی مختلف بیگمات اور مختلف بچوں کو لانے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نے میری 36سال کی رفیق اہلیہ اور دو بالغ و عاقل بچوں کو اس ریفرنس میں گھسیٹا ہے ،درخواست گزار نے کہا ہے کہ خفیہ اداروں اور قومی خزانے کی رقوم کو میری اہلیہ اوربچوں کی غیر قانونی طور پر جاسوسی کے لئے استعمال کرنے کے علاوہ میری خود مختار اہلیہ اورخود مختار بچوں کے ذاتی ڈیٹا کے ریکارڈ کی تحقیقات اور جانچ پڑتال کی گئی ہے، حتی کہ نادرا، ایف آئی اے ،پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ایف بی آر اور وزارت داخلہ نے ان کے خفیہ ریکارڈ کوبھی چیک کرکے ایک دوسرے سے ہی متضاد معلومات اور دستاویزات تشکیل دیتے ہوئے آدھے سچ کے ساتھ یہ ریفرنس گھڑا ہے ،جس سے وزیر اعظم مکمل طور پر آگاہ تھے ،لیکن اس کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے ،درخواست گزار نے کہا ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری خود مختار اہلیہ اور دوخود مختار بچوں کی 3جائیدادیں ہیں،لیکن میرا ان جائیدادوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی بروئے قانون میں ان کی تفصیلات ظاہر کرنے کا پابند ہوں،درخواست گزار نے فاضل عدالت سے سپریم جوڈیشل کونسل کے موجودہ چیئرمین چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور دیگر چار ممبران کو ان کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی آئینی درخواست سمیت اس حوالے سے دائر کی گئی تمام دیگر فریقین کی آئینی درخواستوں کو سپریم کورٹ کے تمام اہل ججوں پر مشتمل فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کرنے، ضمنی ریفرنس نمبر 427/2019 کو روز اول سے ہی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خارج کرنے او ر صدارتی ریفرنس میں ضمنی ریفرنس دائر کرنے والے وکیل کی جانب سے جھوٹی شکایت کرنے کی پاداش میںاس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا حکم جاری کرنے، وفاقی حکومت اور اس کے ذیلی اداروں ،وزارتوں ،پیمرا اور خفیہ اداروں کو اس ریفرنس کے معاملات میں مداخلت سے روکنے اورسپریم جوڈیشل کونسل کے ان دونوں ریفرنسز کے حوالے سے جاری کئے گئے کسی بھی حکم کو کسی بھی لیگل ایڈیشن میں شامل نہ کرنے ،اور اگر شامل کرنا ضروری ہو تو اس صورت میں درخواست گزار کی جانب سے دائر کی گئی تمام درخواستوں اور جوابات کو بھی اس کے ساتھ شائع کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔

تازہ ترین