malik.altaf@janggroup.com.pk
بلوچستان ایک طویل عرصے سے عالمی سامراجی قوتوں کے ’’گریٹ گیم‘‘ کا شکار اور ہدف بنا ہوا ہے۔ماضی میں سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتا تھااور2001ء میں جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا اس وقت بھی عالمی بساط کے کھلاڑیوں کے پاس بھی وہی منصوبہ تھا کہ کس طرح بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرکے کابل کے پہاڑوں سے گوادر کے سمندروں تک اپنی مرضی کا نیا نقشہ ترتیب دیا جائے۔ اس کیلئے یہ عناصر براہ راست تو بلوچستان پر حملہ نہ کرسکے لیکن خفیہ ایجنسیوں نے سازشوں اور تخریب کاری کے ذریعے بلوچستان پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کی کوششیں شروع کر دیں جو ہنوزجاری ہیں۔ تاہم اس دوران پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک طویل منصوبہ بندی کے ذریعے بلوچستان کی خوشحالی اور پاکستان کی ترقی کیلئے گوادر کی بندر گاہ کو تعمیر اور پاک چین اقتصادی راہداری جیسے عظیم قومی منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا شروع کردیا، جس سے حالات بہتری کی جانب گامزن ہو گئے۔ تاہم چند ممالک پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ جیسے منصوبوں کی اہمیت و افادیت کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان اور مشتعل ہیں اور اسی وہ سے بلوچستان کو غیر مستحکم اور افراتفری میں مبتلا رکھنے کیلئے ان کی کارروائیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تو بہت پہلے سے موجود تھے جن کی آبیاری بعض قوم پرست سرداروں نے کی تاہم دہشت گردی اور تخریب کاری کی موجودہ لہر اس وقت زیادہ تیزی سے بڑھنے لگی کہ جب نواب محمد اکبر خان بگٹی کو2006ء میں ہلاک کیا گیا۔ تو خدشہ تھا کہ اس واقع سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان میں موجود پاکستان دشمن قوتیں اٹھائیں گی اور پھر وہی ہوا۔ تاہم بلوچستان میں موجود علیحدگی پسندوں، مزاحمت کاروں، دہشت گردوں اور جلا وطن رہنمائوں کا مقدمہ کافی الجھا ہوا ہے ان سب کو ایک قطار میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ محض نواب بگٹی کا انتقام لینا چاہتے ہیں، کچھ لوگ محض بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی بات کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ سے نالاں اور وفاق کی غیر ضروری مداخلت پر برہم ہیں، کچھ سردار ذاتی مفادات اور قبائلی رنجشوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے درپے ہیں جبکہ ایک مخصوص اور محدود طبقہ بیرونی آلۂ کار کے طور پر کام کر رہا ہے۔ علیحدگی پسندوں کایہ گروہ جو بیرونی ایجنسیوں کا معاون ہے ،ان کی تربیت اور فنڈنگ سمیت دیگر سہولتوں کیلئے افغانستان کی سرزمین ،بعض ممالک کے سفارتخانے اور قونصل خانے استعمال ہو رہے ہیں۔ بہرحال بلوچستان کی صورتحال بظاہر جتنی گمبھیر اور مشکل نظر آتی ہے نیک نیتی اور تدبر سے بہتر بھی ہو سکتی ہے۔ بلاشبہ بسا اوقات طاقت کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے مگر ہمیشہ بندوق تان کر بات کرنا مناسب نہیں۔بلوچستان میں پہلے ہی بہت خون بہہ چکا ہے جو بات کرنا چاہتے ہیں ان سے بات کی جائے، جو سرنڈر کرنا چاہتے ہیں انہیں سرنڈر کرنے کا موقع دیا جائے، جو وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں ان کا استقبال کیا جائے، اس کے بعد جوبھی جنگ کرنا چاہتے ہیں ان سے ضرور جنگ کی جائے، جلاوطن بلوچ رہنمائوں کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کے باوجودصوبائی اور وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ان کے سروں کی قیمتیں مقرر کرنے کی خبریں افسوسناک ہیں۔ اس طرح سے بلوچستان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بلوچستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچ کو موت سے خوفزدہ کرکے سرنگوں نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ کو عزت و احترام دے کر ہی دو قدم پیچھے ہٹایا جاسکتا ہے۔ انگریز نے بھی اسی حکمت عملی پر عمل کیا تھا لہٰذا مقتدر قوتوں کو چاہئے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے بلوچوں کی تاریخ اور بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا مطالعہ ضرور کریں۔