• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فاطمہ ثریا بجیا‘‘ پاکستان کی معروف ادیبہ اور ڈرامہ نگار

اردو ڈرامے کی آبرو فاطمہ ثریا بجیا کی ہر دلعزیزی کا اس سے بڑا اور کوئی ثبوت نہیں ہوسکتا کہ گزشتہ سال ان کے88ویں یومِ ولادت پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے گوگل نے اپنا ’’ڈوڈل‘‘ ان کے نام کیا تھا۔ بڑی بہن کو جس طرح آپا یا باجی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، اسی طرح باجی سے’’ بجیا‘‘کا لفظ اخذ ہوا، جسے فاطمہ ثریا نے اپنے نام کا مستقل حصہ بنالیا۔

شائستہ گفتگو، لب و لہجہ، عاجزی و انکساری اور پہناوے سے برصغیر کی مسلم تہذیب کا سراپا نظر آنے والی فاطمہ ثریا بجیا کا تعلق تہذیب کے داعی اور تعلیم یافتہ ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ 1948ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آکر آباد ہوئیں۔ وہ دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ یہ حسنِ اتفاق جانیے کہ ہزاروں کہانیوں کی خالق، عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان و ادب پر گہری دسترس رکھنے والی بجیا کبھی اسکول نہیں گئیں۔ انھوں نے تمام تعلیم گھر پر ہی حاصل کرکے دنیا کو بتادیا کہ علم کسی درسگاہ کا محتاج نہیں۔ ان کی فنّی خدمات کے اعتراف میں کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی نے انھیں 2007ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری جاری کی۔ ان کا پورا گھرانہ ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ نانا مزاج یار جنگ اپنے زمانے کے معروف شاعر اور والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی چھوٹی بہن معروف شاعرہ زہرہ نگاہ، سابق بیوروکریٹ احمد مقصود حمیدی اور معروف مصنف و ڈرامہ نگار انور مقصود بھائی اور دیگر بہنوں میں فیشن ڈیزائنر صغریٰ کاظمی، سابق صحافی سارہ نقوی مرحومہ اور زبیدہ طارق (زبید آپا) مرحومہ، یہ سب اپنے اپنے شعبہ جات میں مقبول اوراپنی ذات میں انجمن رہے۔

ٹیلی ویژن کی دنیا میں آمد قسمت کا کھیل جانیے۔ 1966ء میں کراچی جانے کے لیے فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی تو بجیا اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کا دورہ کرنے چلی گئیں۔ اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے انھیں اداکاری کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کرتے ہوئے ٹی وی سے رشتہ جوڑا اور پھر بجیا نے خاندانی نظام کی افادیت، آپس میں پیار و محبت اور اخلاص کا تڑکہ لگا کر لازوال ڈراما نگاری سے جداگانہ شناخت بناکر ثابت کیا کہ شخصیت سازی میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔ پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر سےنشر ہونے والے ’’قصہ چہار درویش‘‘ سے شہرت کا ذائقہ چکھا۔ پھر ’’الف لیلیٰ اور بنو عباس ‘‘جیسے شاہکار ڈرامے تخلیق کیے۔ ان کی سوانح ِعمری ’’بجیا:برصغیرکی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔ 1997ء میں ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغۂ حسن کارکردگی اور 2012ء میں صدرِ پاکستان کی طرف سے’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات حاصل کئے، جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ ’’دی آرڈر آف دی سیکرڈٹریژر‘‘ بھی شامل ہے۔ انھوں نے پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن میں بطور صدر کئی سال تک خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ جاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ بھی تخلیق کیا۔ اس کے علاوہ جاپانی طرزِشاعری کو پاکستانی زبانوں میں متعارف کروانے کا سہرا بھی اپنے سر سجایا۔

سادگی، خلوص، وضع داری، شفقت اور ہمہ وقت محبت کا درس دینے والی فاطمہ ثریا بجیا کا یہ خاصہ تھا کہ محبت اور خلوص کی جس چاشنی سے وہ اپنے چھوٹوں سے ملتیں، ان پر شفقت نچھاورکرتیں، تو لوگ گرویدہ ہوئے بنا نہ رہ پاتے اور تا عمر اس شفقت کو دل میں محسوس کرتے رہتے۔ ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ جیسے شہرہ آفاق ڈراموں میں ان کے قلم نے خوب جادو جگایا۔ انھوں نے جس فنّی مہارت سے اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ڈرامے اخذ کیے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بجیا کے ڈراموں میں مشترکہ خاندانی نظام اور رشتوں کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کا درس نمایاں رہا۔ انھوں نے 1965ء کی جنگ کے دوران مقبول ہونے والے جنگی ترانوں کا مجموعہ ’’جنگ ترنگ‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ 60ء اور70ء کی دہائی کے پی ٹی وی ڈرامہ سیریلز ان کے نام رہے، اس دوران انھوں نے’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویر کائنات‘،’سسی پنوں‘، ’انارکلی‘ اور’آبگینے‘ جیسے شاہکار تخلیق کیے۔اتنا ہی نہیں بلکہ بچوں کے پروگراموں اور خواتین کے میلاد کے ساتھ ساتھ ’’اوراق‘‘ جیسے ادبی پروگرام بھی کیے۔ ادب کا یہ روشن چراغ گلے کے کینسر میں طویل علالت کے بعد 10فروری 2016ء کو 86برس کی عمر میں گُل ہوا لیکن وہ اپنی تحریروں کی روشنی سے رہتی دنیا تک اخلاص کا یہ سبق پڑھاگئیں کہ احترامِ انسانیت کی خوشبو کبھی نہیں بجھتی۔پاکستان کو تعلیم یافتہ اور مہذب دنیا میں شامل کرنے میں فاطمہ ثریا بجیا کی تخلیقات ہماری مشرقی تہذیبی اقدار کی بازیافت میںمشعل کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یاد رکھیے جو اقوام ماضی کے شاندار ورثے کو بھُلا دیتی ہیں،انھیں تاریخ بھی بھُلادیتی ہے۔

تازہ ترین