آمنہ کی شادی کے دن قریب تھے۔ آئے روز بازاروں کے چکر لگنا جیسے معمول بن گیا تھا۔ اُس روز بھی آمنہ اپنے بڑے بہن بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ مال میں خریداری کر رہی تھی کہ اسی اثناء میں آمنہ کی بڑی بہن فائزہ کو مال کی ایک جانب سے کافی دھواں اُٹھتا ہوا محسوس ہوا، ابتداً انہیں لگا کہ عین ممکن ہے کہ مال کے عقب میں موجود کچرا کنڈی میں آگ لگا کر کچرے کو ضائع کیا جارہا ہو۔ لیکن چند لمحے ہی گزرے تھے کہ اس جانب سے شورکی آوازیں آنے لگیں، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ دھواں کسی کچرا جلنے کا نہیں بلکہ تیسری منزل پر موجود کسی دُکان میں شاٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑکنے سے اُٹھ رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر جانب افراتفری شروع ہوگئی، آگ کیسے بجھائی جائے۔ مال میں موجود عوام کی اتنی بڑی تعداد کو ہوشیار کیسے کیا جائے، بچوں کو اس جانب جانے سے کیسے روکا جائے، اس ہنگامی صورت حال سے کیسے نمٹا جائے ان تمام پہلؤں سے عوام کی بڑی تعداد ناوقف تھی، جس کے باعث چند لمحوں میں ہی آگ نے مال کی اوپری منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، یہاں تک کہ تیسری منزل پر واقع پلے ایریا کا کچھ حصہ بھی اس کی زد میں آگیا، آمنہ کو یاد آیا کہ اس کا بھائی عامر تو بچوں کو لے کر پلے ایریا میں ہی گیا تھا، دونوں بہنیں پریشانی کے عالم میں اسی جانب بھاگیں کہ کسی طرح بھائی اور بچے محفوظ مل جائیں۔ وہاں پہنچ کے دیکھتی ہیں کہ اس کا ایک بھانچہ پلے ایریا میں بھڑکنے والی آگ میں پھنس گیا ہے، جسے عامر لاکھ تدبیروں کے باوجود بھی باہر نکالنے میں ناکام تھا۔ اسی اثناء میں ایک ادھیڑ عمر شخص نے انتہائی پھرتی اور مہارت سے اس بچے کو پلے ایریا سے بحفاظت نکال لیا، یہ دیکھ کر امنہ اور فائزہ کی جان میں جان آئی جب کہ عامر یہ سوچ کر حیران تھا کہ وہ ایک نوجوان ہونے کہ باوجود بھی وہ نہ کرسکا جو اس ادھیڑ عمر شخص نے کر دکھایا۔ اب اسے تجسس ہو رہا تھا کہ یہ شخص کون ہے، کیا یہ کوئی اسکاوٹر ہے، کیا کوئی ریٹائرڈ آفیسر یا پھر فوجی، کیوں کہ کسی عام شہری کا یہ سب کرنا توممکن نہیں تھا۔ اسی تجسس میں عامر نے اس شخص سے پوچھ ہی لیا کہ آخر اس عمر میں اتنی جواں مردی کا مظاہرہ کس طرح دکھایا، اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا کہ، ’’میں کوئی اسکاوٹر یا فوجی نہیں بیٹا، بلکہ آپ کی طرح ایک عام شہری ہوں، کالج کے دنوں میں این سی سی کی تربیت لی تھی، اُسی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے، آج ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی میں نہیں بھولا‘‘۔
عامر نے این سی سی کا نام ہی پہلی بار سننا تھا، اس لیے تعجب سے پوچھا کہ، ’’این سی سی کی تربیت! یہ کون سی تربیت ہے؟ کیا میں بھی لےسکتا ہوں؟‘‘
ادھیڑ شخص نے اسے بتایا کہ، ’’این سی سی یعنی نیشنل کیڈٹ کور ہے، ایک وقت تھا جب یہ نیم فوجی تربیت کالج کے تمام طلبہ کو دی جاتی تھی۔ اُس وقت تمام طلبہ تعلیم کے ساتھ ساتھ فوجی لباس میں ملبوس انتہائی جوش و خروش کے ساتھ چالیس روزہ اس تربیت میں حصہ لیتے تھے۔ جس کا مقصد اپنے دفاع، ابتدائی طبی امداد، جنگی حالات میں بہتر نظم و ضبط، اور ہتھیار چلانے کی بنیادی ٹریننگ تھی‘‘۔
عامر کو فوج میں جانے کا پہلے ہی شوق تھا وہ یہ باتیں سن کر پُر جوش ہوگیا تھا، اسی کیفیت میں اس نے پوچھا کہ، ’’کیا یہ تربیت لازمی تھی؟ کیا اسے حاصل کرنے والے فوج میں بھی جاسکتے تھے؟‘‘
ادھیٹ شخص نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ، ’’نہیں بیٹا، یہ تربیت لازمی تو نہ تھی، لیکن پھر بھی طلبہ کی اکثریت اس میں حصہ لیا کرتی تھی، شاید اس کی ایک وجہ 20 اضافی نمبروں کی کشش ہو، جو اس تربیت کو مکمل کرنے کے بعد سالانہ امتحان میں ملا کرتے تھے۔ لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا مشکل ہے کہ اس دور میں بھی نوجوانوں میں فوج سے محبت اور فوج میں جانے کی آرزو عروج پر تھی، ایسے میں این سی سی کی تربیت اس شوق کو مزید بڑھاوا دیتی تھی، جب کہ ہم جیسے نوجوان اس تربیت کو بہت جذباتی انداز میں لیتے تھے۔ اس کا اندازہ یوں لگا لو کہ دو دہائی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، آج بھی میرے ذہن میں اس تربیت کی یادیں تروتازہ ہیں۔پھر چاہے وہ صبح سویرے پریڈ گراؤنڈ میں لگنے والی چپ، راست، چپ، راست کی صدایں ہوں یا پیٹ اندر چھاتی باہر کی کمانڈ، دائیں مڑ، بائیں مڑ کی بھول بھلیاں یا پھر ریٹائرڈ فوجیوں کی گرجتی برستی پُر عزم کرتی آوازیں، جن میں کبھی کبھی کچھ مقامی گالیوں کی بھی آمیزش ہوا کرتی تھی، صرف یہ نہیں بلکہ ایک ساتھ بازو اور قدم ملانے کی جستجو، ابتدائی طبی امداد کے شکستہ اور چکنا چور فریکچر اور کئی نہ بھولنے والے لمحے جس میں ایک خودکار رائفل سے فائرنگ رینج میں گولی چلائی گئی تھی۔ یقین مانو بیٹا، پہلی بار رائفل چلانے اور صحیح نشانہ لگانے کا جو احساس، جو خوشی ہوتی ہے وہ کسی اور کام یابی میں نہیں ملتی، کیوں کہ یہ صرف نشانہ بازی نہیں سکھاتا بلکہ اس میں کئی سبق پوشیدہ ہیں، یہ خود پر قابو رکھنا سکھاتا ہے، مشکل حالات میں بھی بہتر انداز میں ارتکاز کرنا سکھاتا ہے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت اجاگر کرتا ہے۔ ان تمام مشقت سے جو ہنر حاصل ہوا اس کا نام ’عزم‘ ہے، ایک جذبہ جو اپنی قوم کے لیے قربان ہونے اور مشکل حالات کے سامنے سینہ سپر ہونے کا درس لیے ہوئے تھا، اسی لیے ہمارے زمانے کے مشہور ترین ڈرامے بھی فوجی کرداروں کو اور فوجی کہانیاں لیے ہوئے تھے۔ ہماری نسل میں ایک جذبہ تھا، ملک و قوم کی خاطر کچھ کر گزرنے کا، جو آج کل کے نوجوانوں میں نہیں پایا جاتا۔ جب کہ یہ نوجوان ہی ہیں جو کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ایکٹیو فورس سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں اس نوعیت کی تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، تاکہ بوقت ضرورت اپنا اور دیگر افراد کا تحافظ کرسکیں۔ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا، شاید یہ سوچ لیا گیا کہ قوم کو اس قسم کی تربیت کی ضرورت ہی نہیں رہی اور یہ ہی سوچ کر اس مشکل زندگی کو عام لوگوں سے دور کر دیا گیا۔ ہو سکتا کہ کچھ وسائل کے مسائل بھی آڑے آئے ہوں، لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ این سی سی کی تربیت ہمارے طالب علمی کے دور کا بہترین اثاثہ تھی اور اگر اس پر کچھ وسائل خرچ بھی ہوتے ہوں تو بھی حالیہ حالات کے پیشں نظر ہماری قوم آج جس مشکل کی گھڑی میں کھڑی ہے، اس کو پھر سے اسی تنظیم کے بندھن میں بندھنے کی ضرورت ہے۔
آرمی پبلک اسکول وہ درس گاہ ہے، جہاں فوجی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، جہاں رونما ہونے والا دہشت گردی کا بدترین کا واقعہ، آج بھی ہر ایک کے ذہن میں تازہ ہے، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے کس قسم کی دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہیں، ایسے میں این سی سی طرز کی عملی تربیت دوبارہ سے طالب علموں کی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
ایسی تربیت جو طالب علموں کو کسی بھی مشکل صورتحال میں مشکل فیصلے آسانی سے لینے میں مدد دے، ایسی تربیت جو جنگ جیسی صورت حال میں زندہ رہنے اور ایک دوسرے کا مددگار بننے کا حوصلہ بخشے، جو معمولی زخمیوں کی مرہم پٹی سے لے کر بڑے زخموں کے علاج تک کے لیے ایک ضروری بنیاد مہیا کر سکے اور جب ہتھیار اٹھانے کی نوبت آ پہنچے تو کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ ہو کہ ہتھیار کو کاندھے کی کس ہڈی کا سہارا دیا جاتا ہے اور کون سی آنکھ بند کر کے نشانہ باندھا جاتا ہے۔
آپ کے علم میں ہو گا کہ فنونِ حرب سیکھنے سے آدمی کو عملی طور پر بہادری اور خدشات کا ادراک کرنے میں مدد ملتی ہے، اگر آپ کو اسلحے کی طاقت اور اپنے جسم کی صلاحیتوں کے موازنے کا احساس نہیں تو آپ کا ہر اگلا قدم کسی بھی اندھیرے میں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو انسانی جسم کی کوتاہیوں اور مختلف حالات میں ان خامیوں پر قابو پانے کی صلاحیتوں سے آشنائی دی جائے۔
وہ صدمہ جس سے ہماری قوم بار بار گزر رہی ہے، وہ حملہ جو ہمارے کمزور اور ناتواں لوگوں پر بار بار ہو رہا ہے، اب اور نہیں سہا جا سکتا۔ بہت ضروری ہے کہ اس کمزوری کو طاقت میں بدل دیا جائے، وہ بازو جو دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے کافی ہیں، مگر ان کو بس ایک ادراک کی روشنی درکار ہے۔ این سی سی کی تربیت ایسی ہی روشنی ہوگی جو ہمارے طالب علموں کو مشکل حالات میں دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخش سکتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو اس قابل کر سکتی ہے جو کسی زخمی کو ابتدائی طبی امداد دے کر اس کی زندگی بچانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ صرف این سی سی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ سول ڈیفنس اور ویمن گارڈ کی ٹریننگ کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، تاکہ کٹھن حالات میں ان تربیت یافتہ افراد اپنے اور ملک و قوم کے دفاع کے فرائض انجام دے سکیں۔ یہ جنگ اب صرف فوجیوں اور سپاہیوں کی نہیں پورے پاکستان کی ہے۔ اس جنگ میں اب ہتھیاروں سے ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی لڑنا ہوگا۔ اس لیے اس جنگ کی تیاری بھی سب کو ہی کرنا ہوگی، اسکول اور کالجز کے لیول پر این سی سی کی بنیادی عملی تربیت اس تیاری کی پہلی سیڑھی ہوگی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ این سی سی کی تربیت نوجوانوں کے لیے صرف جنگی یا ہنگامی صورت حال میں ہی کارآمد ثابت ہو، بلکہ یہ کسی بھی فرد کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ انہیں زندگی کے مختلف معاملات میں بہتر نظم و ضبط قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ کسی بھی صورت حال میں بہتر فیصلہ سازی کرنے کی صلاحیت اُجاگر ہوگی، وقت کی اہمیت و پابندی اور زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ بیدار ہوگا، نوجوانوں کو منفی سرگرمیاں ترک کرکے تعمیری سرگرمیوں کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے، انہیں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی مضبوط بنایا جاسکتا، یہ انہیں مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ان کا سامنا کرنے کا حوصلہ دے گی جس سے ان کا اعتماد بحال ہوسکے گا۔
دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں این سی سی طرز کی تربیت دی جاتی ہے
نیم فوجی تربیت ترقی یافتہ ممالک میں کوئی نئی بات نہیں، بیشتر ممالک میں اس نوعیت کی تربیت نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا لازمی جُز ہوتی ہیں۔ بلاشبہ ہمیں دنیا کے سامنے اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کی ضرورت تو ہے، مگراس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم دفاعی تدابیریں رد کر دیں، حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ کشیدہ حالات میں ایسی تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے۔٭… برطانوی انتظامیہ کی جانب سے مختلف اقدامات کے ذریعہ یہ یقینی بنایا جاتا ہے کر برطانیہ یونیورسٹی کے تمام طلبہ ریزرفورس اور عملی فوجی تربیت حاصل کریں۔ بلکہ مختلف انعامات کے ذریعے انہیں پُرکشش بنایا جاتا ہے۔٭… برطانیہ کی طرح کینیڈا میں بھی طلبہ کو فوجی تربیت اور انعامات عطا کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں کینیڈا کی فوج کی طرف سے ملٹری کا بنیادی کورس کرنے والے طلبہ کو دو تعلیمی کریڈٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔٭… ہندوستان میں پہلے سے ہی بنیادی فوجی تربیت کالجز کی تعلیم کا حصہ رہی ہے اور پچھلے کچھ برسوں میں اس کو سیاستدانوں کی طرف سے مزید پذیرائی بھی ملی ہے۔٭… اسرائیل ایسی تربیت میں سب سے آگے ہے، جہاں ہر 18 سالہ نوجوان کو لازمی ہے کہ وہ بنیادی فوجی تربیت حاصل کرے اور اس طرح کی تربیت اس کی آنے والی زندگی اور نوکری پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔
نیشنل کیڈٹ کور کی مختصر تاریخ
گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ حالات کے پیش نظر ملک بھر کے اسکول اور کالجز میں 22 برس بعد دوبارہ نیشنل کیڈٹ کور کی تربیت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس تربیت کے تحت طلبہ و طالبات کو نہ صرف نیم فوجی تربیت دی جاتی ہے بلکہ انہیں کسی بھی ناگہانی، ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے سیلف ڈیفنس کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ چوں کہ یہ تربیت میٹرک و انٹر کے نصاب کا لازمی جُز نہیں، اس لیے تعلیمی بورڈ کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تمام طلبہ اس تربیت کا حصہ بننے سالانہ امتحان میں 40 روزہ تربیت حاصل کرنے والے کو 20 اضافی نمبر دیئے جاتے تھے۔ واضح رہے کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کی اس تربیت کا سلسلہ قیام پاکستان کی ابتدا سے ہی باقاعدہ شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت ہر چھوٹے بڑے شہروں میں سول ڈیفنس کی ٹریننگ ہوا کرتی تھی، سرکاری ملازمین کو بھی بم ڈسپوزل، نشانہ بازی، آگ پر قابو پانے اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ، تقریباً ہر گھر کے جوان شہری اس دفاعی تربیت میں شامل ہوتے تھے، تاہم 1970ء کی دہائی میں کالج طلبہ کے لیے این سی سی اور طالبات کے لیے ویمن گارڈ کی ٹریننگ کا اجزا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ 90 کی دہائی میں بگڑتے سیاسی حالات، این سی سی تربیت کا غلط استعمال، تربیت یافتہ نوجوانوں کو تعمیراتی کاموں کی بجائے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے جیسے اقدامات کے پیش نظر اسے ختم کر دیا گیا۔ تاہم 2014 میں اے پی ایس کے واقعے کے بعد این سی سی تربیت کو دوبارہ شروع کرنے کی بازگشت سننے میں آئی تھی، مگر اسے عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ اب ایک بار پھر مسلئہ کشمیر کے تنازعے اور دونوں ممالک کے مابین سنگین صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔