سیّد جعفر شاہ کاظمی
23 مارچ 1940ء کو مَنٹو پارک(موجودہ اقبال پارک)، لاہور میں منظور ہونے والی تاریخ ساز’’قرارداد‘‘کی یاد میں ہر سال یومِ پاکستان پورےجوش و خروش سے منایا جاتا ہے،لیکن گزشتہ برسوں کی نسبت اس سال یہ دن زیادہ ملّی جوش وجذبے اور ولولے کے ساتھ منایا گیا۔اس کی بنیادی وجہ پاک فضائیہ کی جانب سے رواں سال فروری میں بھارتی جارحیّت کی کوشش ناکام بنانا تھا۔ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے سات دَہائیاں بیت چُکی ہیں، اس عرصے میں وطنِ عزیز کبھی اندرونی تو کبھی بیرونی دشمن کی سازشوں کا مسلسل شکار رہا ہے۔ تاہم، اللہ کی شان دیکھیے کہ اُس رب نے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس دھرتی پہ اپنا کرم بنائے رکھا اور اسے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقت ور کر دیا، اتنا مضبوط کہ اب دُشمن ہماری طرف مَیلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأ ت بھی نہیں کرسکتا۔ ویسے اگر باریک بینی سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا دشمن جنگی محاذ سے زیادہ اندرونی طور پر مُلک کو کم زور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اُس کی یہی کوشش ہےکہ ہمارے بیچ لسانی، علاقائی بنیاد پر پھوٹ ڈالی جائے، تاکہ پاکستان کی بنیادیں کم زور ہوں۔اس لیے کبھی امام بارگاہوں میں دھماکے ہوتے ہیں، درگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو کبھی مساجد نشانے پر ہوتی ہیں۔ اور جب ان حربوں سے بھی وہ ہمیں تقسیم نہیں کرپایا، تو اُس نےصوبائیت کی بنیاد پر پھوٹ ڈالنی شروع کردی، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ ہی چھوٹے صوبوں یا علاقوں کو نظر انداز کیا ہے، وہاں کے غریب اور حقوق سے محروم عوام کو متنفّر کرکے پاکستان کوبآسانی کمزور کیا جا سکتا ہے، اسی لیے وہ اُنہیں نشانہ بناتا ہے، تاکہ عوام اور ریاست کولڑوا کر مُلک کا سُکون برباد کیا جائے، لیکن بے وقوف دشمن یہ نہیں جانتا کہ مملکتِ پاکستان کا اِک اِک باسی وطن پر جان قربان کردینے کے جذبے سے سرشار ہے۔ تاہم، یہ بات تو طے ہے کہ جب تک چھوٹے صوبوں کے عوام کو حقوق ، انصاف، سہولتیں نہیں ملیں گی، تب تک مُلک ترقّی کر سکے گا اور نہ ہی امن و امان کی صورتِ حال مکمّل طور پر بہتر ہو سکے گی۔ ہمیں یہ ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ا س وقت پاکستان جن خطرات میں گھِرا ہوا ہے، اُن میں چھوٹے صوبوں کے عوام میں احساسِ محرومی سرِ فہرست ہے۔
جب پاکستان آزاد ہوا ،تو اُس وقت گلگت بلتستان، کشمیر کے زیر ِنگیں تھا۔ 1948ء میں یہاں کے عوام اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے۔ آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ’’شمالی علاقہ جات‘‘ کے طور پر مشہور تھا،لیکن 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں اسے نیم صوبائی اختیارات دئیےگئے، مگر اس سے بھی عوام کے مسائل حل ہوئے، نہ ہی اُنہیں تمام حقوق مل پائے۔یہ پاکستان کا واحد خطّہ ہے، جس کی سرحدیں تین ممالک(بھارت، چین، افغانستان) سے ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں، پڑوسی مُلک بھارت سے ہونے والی تین جنگیں (48ءکی جنگ ،کارگل جنگ اور سیاچن جنگ) اسی خطّے میں لڑی گئیں۔یہی وجہ ہے کہ اسے اہم دفاعی علاقہ بھی سمجھاجاتا ہے۔ مشہور تاریخی شاہراہ، ’’شاہراہِ ریشم (پاک، چین کے درمیان زمینی گزرگاہ)‘‘ بھی یہیں سےگزرتی ہے۔ سیّاحتی، معاشی و دفاعی اعتبار سے اس قدر اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود اس خطّے کے افراد کئی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی قریباً 9لاکھ 22 ہزاراور کُل رقبہ 72971 مربع کلو میٹر ہے۔ انتظامی طور پہ اسے دس اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہرا سکردو اور دارالحکومت گلگت ہے۔ یہاں گلیشیئرز کی صورت پانی کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں،کسی نے بھی اس خطّے میں تعلیم و صحت پر خاص توجّہ نہیں دی۔یہاں کے لوگ بے حد سخی، پُر خلوص اورجرأت مند ہیں۔ لڑنے پہ آئیں تو لاٹھی کے زور سے ڈوگرہ افواج کی توپیں خاموش کروادیں اور دوستی کی ، تو پاکستان سے غیر مشروط الحاق کرلیا۔ گلگت بلتستان کی خُوب صُورتی سے تو ہر کوئی متاثر ہے، لیکن یہاں کے عوام کے لیے کوئی کام نہیں کرتا۔ یہاں کے باسی آج بھی اپنی شناخت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہاں آج تک نہ کوئی میڈیکل کالج بن سکا اور نہ ہی انجینئرنگ یونی وَرسٹی۔ گلگتی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے صوبوں یا شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے، مگرسخت محنت و مشقّت اور سختیاں اُٹھانے کے باوجود بھی یہاں کے نوجوان علم کی پیاس بجھنے نہیں دیتے۔ کاش! اس دَورِ حکومت میں خطّے کے لوگوں کی بھی شنوائی ہوجائے اور ان کے مسائل حل کردئیے جائیں۔