• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’پاکستان ایک خُوب صُورت خواب کی تعبیر ہے، وہ خواب جو ہمارے بزرگوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے دیکھا۔‘‘ صد شُکر کہ آج ہم ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، اللہ پاک نے ہمیں غلامی کی زندگی سے بچایا ، لیکن کبھی کبھی یہ دیکھ کر بے انتہا افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس مملکتِ خداداد کا کیا حال کر دیاہے ۔ کس بے دردی سے اس نعمت کا زیاں کر رہے ہیںکہ نا قدری کی تمام حدود پار کرلی ہیں۔

عُمر کے اعتبار سے مَیں پاکستان سے گیارہ برس بڑا ہوں۔جب پاک سر زمین معرضِ وجود میں آئی، مَیں چَھٹی جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ ہمارے اسکول کا نام اسلامیہ ہائی اسکول، کمال پور(ضلع ہوشیار پور،انڈیا) تھا، جومیرے گھر (گلی ککے زئیاں) سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ گاؤں میں مسلمان بچّوں کے لیے اسلامیہ اسکول، ہندو/سکھ / عیسائی بچّوں کے لیےگورنمنٹ ہائی اسکول اور خالصہ ہائی اسکول تھے۔ ہمارا گھرا تھانے (کوتوالی) کے پاس تھااور میرے والد صاحب کچہری میں ڈسٹرکٹ ناظم تھے۔ اُن کاتبادلہ ہوشیار پور سے گوجرانوالہ (پاکستان )میں ہواتھا، مگر افسوس کہ انہیں پاکستان میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ایک جمعہ آئے اوراگلے ہی جمعے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انہیں میانی صاحب میں دفنایا گیا۔ ہم 8اکتوبر 1947ء کو بھارت سے ہجرت کر کےپاکستان پہنچے اور وہ 16اکتوبر کو انتقال کرگئے۔ہم آٹھ بہن، بھائیوں اور ماں کی تو چھپّر چھایا ہی چھِن گئی۔نیا مُلک، نئی سر زمین اور ہم بے یارو مدد گار۔ساری ذمّے داری اورہماری تعلیم و تربیت کا بوجھ امّی جی اور بڑی آپا کے ناتواں کندھوں پہ آگیا۔بیس برس کی آپا نے کمر کس لی اورکسی لائق، فائق بیٹے کی طرح امّی جی کا بوجھ بانٹا۔

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ تقسیمِ ہند سے قبل ہم جس محلّے میں رہتے تھے، اس کے اِردگرد ہندو آبادیاں تھیں، لیکن کسی ایک ہندو کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔ وہ تو ہر لمحہ ڈرے سہمےہمارے محلّوں، گلیوں سے گزرتے تھے۔ ویسے بھی سب ہی جانتے ہیں کہ ہندو ایک بزدل اور ڈرپوک قوم ہے۔ ہمارے جیالے نوجوان جب کبھی ان کے محلّے میں جلوس نکالتے ، تو اپنے کمروں میں چُھپ جاتے۔ بعدمیں ہندوؤںنے اپنی حفاظت کے لیے دیہات سے سکھوں کو بلوالیا۔ ہمارے محلّے، گلی ککے زئیاں کے نزدیک ہندوؤں کاایک مندر تھا ۔ ایک رات وہ ہمارے محلّے پر حملہ کر نے آئے۔ محلّے کے شروع میں ایک مسجد ، ’’مہر علی کی مسجد‘‘ تھی۔ اس کی چھت پر ہمارے جیالے ساری رات پہرہ دیتے، جہاں انہوں نے بہ طور اسلحہ اینٹیں، پتھر اور شیشے کی کچھ بوتلیں جمع کر رکھی تھیں۔ توجب وہ جچتے (جنگجو سکھ) اور ہندو رات کے پچھلے پہراسلحے سے لیس حملہ آور ہوئے، تو ہمارے جیالوں نے مسجد کے اوپر سے اینٹیں برسانی شروع کردیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جہاں وہ حملہ کرنے جا رہے ہیں، وہاں گُھستے ہی انہیں منہ کی کھا نی پڑے گی، پتھروں ، شیشوں بوتلوں کی بوچھاڑ نے انہیں سنبھلنے کاموقع ہی نہیں دیااور وہ چند ہی لمحوں میں اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور بندوقیں چھوڑ کر حواس باختہ واپس لوٹ گئے کہ اگر مزید آگےبڑھنے کی کوشش کرتے، تو لاشیں اُٹھاکر لے جانے والا بھی کوئی نہ بچتا۔

اُس رات بہت بارش ہورہی تھی ۔ بلوائیوں کو دس لاکھ پنجابی مسلمانوں کو شہید کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔تاہم، اُس حملے میں ہمارابال بھی بیکا نہ ہوا۔ حملے کے بعد مسلمانوں کو کیمپوں میں پہنچانا شروع کردیاگیا۔ کمال پور میں کیمپس بنائے گئے تھے، جہاں سےہم نےبسوں، ٹرکوںمیںسوار ہو کر پاکستان کی طرف ہجرت کی۔راستے میں ہمارا سارا سامان بلوائیوں نے لوٹ لیا۔ہمارے ایک تایا جی اپنے خاندان اور دو گھوڑں کے ساتھ ہجرت کر رہے تھے۔ ابھی تھوڑاہی راستہ طے کیا تھا کہ پہاڑوں سے پانی آنا شروع ہوگیا۔ ان دنوں بارشیں بہت زیادہ ہورہی تھیں، سو قافلہ خشکی پر ٹھہر گیا کہ پانی آنا بند ہو تو آگے چلیں لیکن ایک ماہ تک پانی بند نہ ہوا۔ دن گزررہے تھے اور راشن ختم ہونا شروع ہوگیا تھا دوسری جانب اِدھر اُدھر سے بلوائی آنا شروع ہوگئے تھے۔ انہوں نے قافلے والوں کو لالچ دیا کہ ہم آپ کو راشن اور گھوڑوں کے لیے چارہ بھی دیں گے۔ بھوک سے بلکتے بچّوں کی خاطر چند آدمی، جن میں تایا جی بھی شامل تھے، ان کی باتوں میں آگئے اور ان کے ساتھ چل پڑے ۔مگر ہندواور سکھ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، انہوں نے موقع پاتے ہی مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کرکے لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ اُنہیں، کفن دفن اور پیاروں کا آخری دیدار تک نصیب نہ ہوا ۔

اپنا گھر بار، آباؤاجداد کی سر زمین ، بچپن کی یادیں، سب چھوڑ چھاڑ کرآنے والوں کے لیے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کسی طور آسان نہ تھی۔ بلوائیوں ، ہندوؤں اورسکھوں نے سفّاکیت کی تمام حدود و قیود پار کر ڈالی تھیں، مگر یہ ہمارے بزرگوں ہی کا حوصلہ تھا کہ سرزمینِ پاکستان پر قدم رکھتے ہی سجدۂ شُکر بجا لائے۔ہم نے اور ہمارے بزرگوں نے یہ تکالیف اس لیے برداشت کیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوں۔ ذرا سوچیے کہ کیا قیامت خیز منظر ہوگا جب ماؤں کے سامنے اُن کے جواں سال جگر گوشوں کو لہو لہان کرکے شہید کیا گیا ۔ بھائیوں، باپوں کے سامنے اُن کی لاڈلیوں کو رسوا کیا گیا۔ بابا کی شہزادیوں کے سامنے اُن کےپیارے بابا کی پگڑی اُچھالی گئی… یقیناً وہ مناظر نا قابلِ بیان ہیں۔کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ یہ وطنِ عزیز ہمیں بیش بہا قربانیوں کے بعد نصیب ہوا ہے۔ جب ہم کچھ لوگوں کو یہ کہتے سُنتے ہیں ناں کہ ’’تقسیمِ ہند کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ توبخدادل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس مُلک کی بنیادوں میں ہمارے تایا جی سمیت کئی معصوموں کا لہو شامل ہے۔اور ہم کس بے دردی سے اس پاک زمین کے اثاثے ضایع کر رہے ہیں۔ اس اُمید پر اپنی دل خراش داستان آپ کے گوش گزار کی ہے کہ شاید نسلِ نو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی لاج رکھے اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف اپنے مُلک و قوم کے بارے میں سوچے کہ یہ مُلک ہے ، تو ہم سب ہیں۔

تازہ ترین