• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمیٰ اعوان، لاہور

میری قریبی بینچ پر ایک نوجوان آکر بیٹھا، جس کے ہاتھوں میں ایک بڑی سی کتاب تھی۔ کتاب پر ایک ایسے منظر کی جھلک نظر آئی، جس نے مجھے بے کل کردیا۔ فی الفور اُٹھ کر اس کے پاس گئی اور چند لمحات کے لیے کتاب دینے کی درخواست کی۔ بیبا بچّہ ہی لگتا تھا کہ کوئی سوال، جواب کیے بغیر کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔ یہ ایک پکچر بُک تھی۔ٹائیٹل پر عظیم دیوار کے سمیتائی حصّے کا ایک گُنگ کردینے والا منظر جگمگا رہا تھا۔ کتاب کھولی، تو اندر کے دونوں صفحات پر پھیلے ٹائٹل کور والے منظر کے ساتھ چار پانچ سطروں کا تعارف بھی درج تھا۔ صفحات مناظر کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیل کو بھی اُجاگر کررہے تھے۔ گویا فوٹو گرافر کے کمالِ فن کی داد دے رہے تھے، تخلیق کار کے گیت گا رہے تھے۔ عظیم دیوار کا سمیتائی حصّہ بیجنگ کے نزدیک ہے، جسے مِنگ سلطنت کے زمانے میں بنایا گیا۔ یہ ایک دِل نواز سُر کی طرح آپ کے اندر کو زیر و زَبر کرتا اور کسی بے انتہا خُوب صُورت گیت کی لے کا سا تاثر دیتا، دھڑکتی سانسوں کو منجمد کرتا محسوس ہوتا ہے۔ ایک کہاوت بھی درج تھی کہ سمیتائی کا یہی وہ عمودی حصّہ ہے، جو عظیم دیوار کا حیرت انگیز عجوبہ ہے۔ یہ پہاڑوں کی ڈھلانی پاتال سے اوپر اٹھتا، چوٹی تک جاتا اور وہاں سے پھر عمودی صُورت وادیوں میں گرتا ہے۔ ورق پلٹا، تو اگلا منظر پچھلے کو مات دے رہا تھا۔ کچھ حصّے ایسے تھے، جو رات کے عکّاس تھے، جنہیں دیکھتے ہوئے بندہ، کائنات کے تخلیق کار کی صنّاعی پر اَش اَش کر اُٹھتا ہے۔ نام بھی کیا ہی تھے۔کہیں بادلوں کی سیڑھی اور کہیں جنّت کا پُل۔ ہونٹوں پر ہنسی بکھری،’’تو یہ جنّت کو مانتے ہیں۔ پُلِ صراط سے گزر کر ہی بندہ جنّت میں داخل ہوتا ہے۔‘‘بادلوں کی سیڑھی والا حصّہ بہت تنگ نظر آتا تھا اور اس کی مشابہت مِن و عن سیڑھی ہی سے تھی، جس پر چڑھ کر جنّت کے پُل پر پہنچا جاتا ہے،پار گہری وادیاں تھیں۔ اگلا صفحہ پلٹا، تو منظر پھر دونوں صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔

اِک جوئے رواں ہے چین.... (تیسری اور آخری قسط)
مضمون نگار، مقامی چینی جوڑے کے ساتھ

دیوار کا یہ Huanghuachengوالا حصّہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مِنگ کے زمانے کا یہ حصّہ بیجنگ سے کوئی 65کلومیٹر دُور ٹاؤن Jiudure میں واقع ہے۔ اس قدیمی حصّے کے گرد ایک خُوب صُورت جھیل بھی ہے۔ گرمیوں میں یہ جنگلی پھولوں سے بَھر جاتا ہے، اسی لیے اسے نام بھی ’’ Huanghuacheng‘‘ دیا گیا ہے، جس کا مطلب’’ پیلے پھولوں کا شہر‘‘ ہے۔ لاہور اپریل، مئی میں املتاس کے پھولوں سے بھرا کس قدر خُوب صورت لگتا ہے، کچھ ایسا ہی منظر اُس وقت میرے سامنے تھا۔ اِسی جگہ کے دو مناظر اگلے صفحات پر بھی تھے۔ ایک میں یہ ڈریگن کی طرح نظر آیا، جو نیلے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے والا ہو۔ دوسرے میں قلعے کا منظر تھا۔ اس قلعے میں اسکالر نامی درخت بھی ہے، جسے چُھونے سے برکتیں ملتی ہیں۔ چار سطروں والے حصّے فوراً موبائل میں قید کیے اور آگے بڑھنے کے لیے ورق پلٹے۔ خُوب صورت آرٹ ورک ہیروں کی طرح جگمگا رہا تھا۔ یہ حصّہ دیوار’’ Jinshan ‘‘کے چھوٹے بڑے پہاڑوں پر بنا ہوا ہے، جو Luanping اورMiyun کے درمیان حدِ فاضل ہے۔ اس کے واچ ٹاورز اور وہ بھی انواع و اقسام کے، خطّاطی والی اینٹیں کیا کمال کی چیزیں تھیں۔ واچ ٹاورز یوں لگتے تھے، جیسے روشنی کے مینار ہوں۔ سنگلاخ پتھروں میں سے جھلکیاں مارتا شاہانہ کرّوفر بندے کو سحر زدہ کرتا تھا۔ کتاب اور اِس کے تصویری مناظر نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ سچّی بات ہے، گردوپیش سے بے نیاز تھی کہ دفعتاً نوجوان میرے سَر پر آ کھڑا ہوا اور کتاب لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ ملتجی نظروں سے اُسے دیکھتے اور منمناتے ہوئے التجا کی کہ وہ کچھ دیر اور دیکھنے دے۔ لڑکے نے اپنی ساتھی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اُسے بلا رہی ہے۔ واپس کرتے ہوئے پُوچھا بھی کہ کہاں سے خریدی تھی، مگر لڑکا تو جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا، ایک طرح چھینتے ہوئے بھاگنے لگا۔ دُور آسمان کی نیلاہٹوں کو چُھوتی دَرّے نُما دیوار کو دیکھا، جس پر عشّاق والہانہ انداز میں چڑھتے نظر آتے تھے، تو مجھے کچھ عرصہ قبل پڑھی ایک نظم یاد آ گئی۔ وہ ایسی ہی تھی، جیسی ہمارے ساحر لدھیانوی نے تاج محل پر لکھی تھی کہ’’اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر …ہم غریبوں کی محبّت کا اڑایا ہے مذاق۔‘‘’نظم کے بول کچھ یوں تھے’’چینی غلاموں کے پاس…اپنے مُلک کی حفاظت کے لیے…اپنی ہڈیوں اور پٹّھوں کے پتھر… توڑنے کے لیے ہی تو ہیں…یقیناً یہ عظمت کی لَو دیتی بلند دیوار…اُن سب کی حفاظت کرتی ہے…یا شاہوں کی۔‘‘اب حقائق کی جتنی چاہے تکاّ بوٹی کر لیں، بادشاہوں کے عدل وامن کے گیت گا لیں، اپنی قومی تاریخ کو سجانے سنوارنے اور ماضی کے حکم رانوں کو پھنّے خان ثابت کرنے کے لیے دلائل اور تاویلوں کے ڈھیر لگا دیں، تاہم یہ کھوج بھی تو ضروری ہے کہ آخر اِسے بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ دِل چسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے پاس اپنے حوالے اور وجوہ ہیں، دلائل اور توجیحات ہیں۔ مگر سچ یہی ہے کہ امن اور عام لوگوں کی حفاظت اور اُنہیں جنگ و جدل سے بچانے کی ضرورت کے حوالے زیادہ ٹھوس حقائق سامنے آتے ہیں۔ البتہ ہماری ناقص رائے کے مطابق پرانے بادشاہوں کی سوچ بھی آج کے بادشاہوں جیسی ہی تھی۔ پہلی اور اہم فکر تو اپنی راج دھانی کی بقا ٹھہری۔ تاج و تخت محفوظ رہے۔ اپنی سلطنت کی گدّی بیٹے، پوتے اور پڑپوتے ہی کو نصیب ہو۔ بیچ میں کچھ نیک دِل بھی جنم لے لیتے ہیں، جن کے دِلوں میں کہیں تھوڑا بہت رعایا کا بھی خیال ہوتا ہے کہ کچھ تو ان غریبوں کا بھی بھلا ہوجائے۔ یوں اس میں مبالغے والی تو ذرا سی بات بھی نہیں ،ہر چھوٹی بڑی مصیبت کی موری کے آگے تو اُنہوں نے آنا ہی ہوتا ہے۔ مگر اب جب وہی نہ رہے، تو کہاں کا راج پاٹ۔تب کے زمانے آج جیسے تھوڑی تھے کہ خلقِ خدا بس ایک بٹن دبانے کی مار پر ہوتی۔ اکلوتی شاہ راہِ ریشم کی حفاظت بھی تو مقصود تھی کہ دنیا کا لمبا ترین اور قدیم ترین راستہ تو یہی تھا۔مگر ان کے علاوہ بھی بڑے اہم مسائل تھے۔ اِس میں شک نہیں کہ زمانۂ قدیم ہی سے یہ خیال بڑا طاقت وَر تھا کہ چین کی جغرافیائی ساخت اور آب و ہوا نے اِس مُلک میں دو مختلف کلچرز کو رواج دے رکھا ہے۔ جنوب، گرم آب و ہوا کے ساتھ زراعت کے لیے موزوں ترین، جب کہ شمال سرد اور جانوروں کی چراگاہوں کے لیے بہترین جگہ سمجھا جاتا۔پھر آب و ہوا اور موسم کے مطابق ہر ایک کا کلچر بھی اسی مناسبت سے ترقّی یافتہ اور قدرے پس ماندگی کے زمرے میں آ ٹھہرتا ہے۔ اگر زرعی پیشے سے منسلک آبادی کی ترقّی اور آگے بڑھنے کے لیے امن اور استحکام ضروری تھا، تو شمالی علاقوں کے لوگ خود کو زندہ رکھنے کی تگ و دَو میں زیادہ متحرّک تھے۔ قدرتی اَمر ہے کہ ایسے حالات میں ایک حصّے کا دوسرے پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ تاریخی تناظر میں شمال کے خانہ بدوشوں کے حملے زندگی کی ضروریات کے حصول کے لیے تھے۔ اُن بے چاروں کو علاقے فتح کرنے سے رغبت نہ تھی، ساری جدوجہد تو روٹی اور پیٹ کے لیے تھی۔ اِس لیے شمال کے حملہ آوروں سے بچائو کی بات تو نِری فضول ہی لگتی ہے۔ دوسرا اس کی حمایت میں یہ کہا جانا کہ یہ عظیم دیوار ہی تو تھی، جس نے اگر ایک طرف شمال اور جنوب کے لوگوں کو اپنی اپنی حد بندیوں میں رکھا، تو ساتھ ہی اُنہیں رہنے کا قرینہ بھی سِکھایا۔ اس نے دونوں کے درمیان جھگڑے کم کرتے ہوئے اُنہیں شعور دینے کی بھی کوشش کی۔ اِس چھوٹے سے قدم نے جنوب کے پیداواری ڈھانچوں اور معیشت کو عروج دیا۔یقیناً بندہ اِس سے اتفاق کرتا ہے کہ جب لُوٹ مار کے راستے بند ہوگئے، تو شمال کے لوگوں کو بھی احساس ہوا کہ لُوٹ مار پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے وسائل کو استعمال میں لانا چاہیے اور یہی وہ سوچ تھی کہ جس نے دونوں کے درمیان افہام و تفہیم کے دروازے کھولے۔ اب ذرا تعمیری تفصیل پر بھی بات ہوجائے۔ جب دیوار کے پہاڑوں پر بننے کے مراحل آئے، تو ان پہاڑوں ہی کے پتھر استعمال کیے گئے۔ جب یہ میدانوں سے گزری، تب اینٹوں، گارے اور چونے سے کام چلایا گیا۔ جب صحرا لپیٹ میں آئے، تو پھر درختوں کی شاخیں اور گہرائیوں سے نکالی ہوئی ریت نے کام کیا۔ یہ دیواریں تو بہت پہلے ہی بننے لگی تھیں، مگر اُنہیں جوڑ کر باقاعدہ ایک بڑی دیوار کی پہلی صُورت 220 قبلِ مسیح میں شہنشاہ Qimshi Hang نے دی، جو چین کا پہلا بادشاہ تھا۔ Liuche اور Han شہنشاہیت نے سِلک رُوٹ کی حفاظت کی۔ پھر وِنگ کے زمانے میں، 1368-1644 تک پتھر اور اینٹوں سے اسے مزید مضبوطی دی گئی۔ جہاں تک مدافعانہ حیثیت کا تعلق ہے، عظیم دیوار ایک طویل لمبے پھیلائو والا سلسلہ ہی نہیں، بلکہ اس کے دفاعی مقاصد کے تحت تعمیر کردہ حصّے، جن میں بلاک ہائوس، چھاؤنیاں، فوجی چوکیاں، دَرّے، سگنل ٹاور بھی شامل ہیں، بہت منصوبہ بندی سے بنائے گئے تھے۔ اب تعمیری کے ساتھ، کچھ تنقیدی پہلوؤں پر بھی بات ہو جائے۔ اس دیوار میں اپنے اپنے عہد کے لوگوں کا خون پسینہ، آنسو، آہیں، شاہوں کا جلال، رعب و دبدبہ اور تخلیقی ذہنی ایچ سبھی کچھ شامل ہے۔ چند لمحوں کے لیے سوچیں، بے چارے غریب غربا، مزدوروں کا پتھر توڑتے کیا حال ہوتا ہوگا؟ کبھی اوپر بلندیوں سے لانے میں ہلکان، تو کبھی ہزاروں فِٹ نیچے گہرائی سے ڈھویا ڈھوئی میں بے حال۔ مفت بیگار کے یہ جبری سلسلے، نوجوانوں کو گھروں اور خاندانوں کے بیچ سے اٹھا کر لے جایا جاتا۔Qin سلطنت کے پہلے بادشاہ کے زمانے میں جب اِس عظیم دیوار کو بنانے کے لیے ایک نوجوان کو بھرتی کیا گیا، تو اس کی نئی نویلی شادی تھی۔زندگی کے سہانے شب و روز میں جیسے جدائی کا زہر گُھل گیا۔سو، ایک دن خاتون شوہر سے ملنے کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ کوسوں میل دُور کا سفر۔ پوچھتی پاچھتی، بھوکی پیاسی، جب اُس جگہ پہنچی، جہاں تعمیراتی کام ہورہا تھا، تو ساتھیوں نے بتایا کہ’’ اُس کا شوہر تو مرگیا ہے اور اُسے دیوار کے نیچے ہی دفنا دیا گیا۔‘‘ خبر تھی یا کوئی بجلی، جو اُس پر گری۔ تین دن اور تین راتیں وہیں بیٹھی مسلسل روتی رہی۔ سچّی بات ہے، قیمت تو عام آدمی ہی کو ادا کرنی پڑتی ہے۔یہ خاتون تو محض ایک مثال ہے۔شمال کے گھڑ سوار لٹیروں کو بھی سب سے زیادہ اِس بات پر اعتراض تھا کہ یہ کیا اُنہیں محصور کردیا گیا۔ کیا وہ بزدل ہیں؟اُنہیں تو یوں بھی جنوب کے کھاتے پیتے لوگوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ وہ برملا کہتے،’’ سب بکواس ہے کہ یہ اُن کی حفاظت کے لیے بنائی جارہی ہے۔ یہ تو بادشاہ، کِن کے راج کو دوام دینے کی کوشش ہے۔‘‘ شاید اسی لیے وہ بادشاہ سے بھی متنفّر تھے۔ اب یہ سوال کرنا بھی ضروری تھا کہ کِسی نے اِسے کبھی سَر بھی کیا ؟ سنگاپور کے’’ Monks‘‘ سے متعلق روایت ہے کہ اُنہوں نے کوئی نو ماہ میں اِسے تسخیر کیا تھا، مگر اس پر بھی کہا گیا کہ کہاں؟ صرف بیجنگ کا حصّہ سَر ہوا تھا۔113170میل کی لمبائی کو پیدل نو ماہ میں سَر کرنا کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑی ہے؟ مارکوپولو کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ قبلائی خان کو بہت عزیز تھا۔ وہ منگولیا تک گیا اور اُس نے دیوار کا بھی ذکر کیا۔ کولمبس1346 ء کے لگ بھگ Yuanشہنشاہیت کے دور میں چین آیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس نے دیوارِ چین کے بارے میں پہلے ہی سے سُن رکھا تھا۔ اُس نے اسے قرآنِ کریم کے ساتھ جوڑ دیا اور یاجوج ماجوج کا بھی ذکر کیا۔تاہم، اب یہ اعزاز چینی اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں کہ امریکی خلابازوں کی آنکھوں میں زمین سے نظر آنے والی کوئی شے چُبھی، تو وہ یہی دیوارِ چین تھی۔چاہے خلا باز لاکھ اس سے انکار کریں، چین بھلا اُن پر کیوں یقین کرے۔ اس کے حساب سے ایسا بیانیہ نری سازش اور اس سے چین کی تذلیل مقصود ہے۔حالاں کہ اُن کے اپنے پہلے خلا باز، Yang Liwei نے 2003 ء میں انکشاف کیا کہ اُس نے خلا سے کوئی دیوار شیوار نہیں دیکھی۔ بہرحال، یہاں باتھ روم جانے کا تجربہ بھی مزے کا تھا۔ باتھ رومز پارکنگ ایریا میں ڈھلان پر بنے ہوئے ہیں۔ ایک لمبی قطار میں کوئی پندرہ اور وہ سب کے سب زمینی۔ ایک کا دروازہ کھولتی، وہ منہ چڑاتا، دوسرے کا کھولتی وہاں وہی منظر۔ تپ چڑھ گئی۔ پھپھولے پھٹنے لگے ’’کمبختو! یہ تم محنت کشوں کے گٹّے گوڈے تو سب ٹھیک ٹھاک ہی ہوں گے کہ تمہارے دردِ دل رکھنے والے لیڈرز نے تمہیں کھانے پینے کی خالص اشیاء دینے کی کوشش کی۔ کسی نے اگر کوئی دو نمبری کرنا چاہی، تو اُسے پھاہے لگانے میں پَل نہیں لگایا ۔ مگر یہ ہم بد قسمت لوگ جو اپنے عیاش اور ذات کے پُجاری حکم رانوں کے باعث ناقص غذائوں اور جعلی دواؤں کے پروردہ ہیں، جوانی ہی میں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے غریب پر جوانی بس ایک لہر کی مانند آتی اور گزر جاتی ہے۔سو، ہمارے گٹّے گوڈے اِس قابل کہاں کہ اِس زمینی چولھے پر بیٹھوں۔ بہرحال اوپر والے کا احسان ہی تھا کہ آخری ایک دانہ غالباً سوغات یا تحفے کے طور پر رکھا ہوا تھا۔Mutianyu جانا اور اُسے دیکھنا زندگی کا ایک اور حَسین تجربہ تھا۔ دراصل، دونوں نواسوں نے ماں باپ کا ناک میں دَم کرنا تو کیا، ایک طرح اُنہیں طعنے مار مار کر جینا حرام کر دیا کہ’’ آپ لوگوں نے نانو کو سیڑھیاں چڑھا چڑھا کر ہپوہان کر دیا۔ اُنھیں کیبل کار کی رائڈ سے چوٹی پر لے جانا چاہیے تھا۔‘‘ مجھے بھی اُکساتے’’ دیکھ لیں! آپ کی بیٹی نے آپ کے ساتھ دو نمبری کر دی ہے۔‘‘ خُوب شغل لگتا کہ اس سارے وقت میں میرے لاڈلوں نے مجھے لیپ ٹاپ پر اس حصّے کے کون کون سے مناظر نہ دِکھائے۔ واچ ٹاور کی انوکھی تعمیری ساخت، سبزے سے بھرے جنگل، بہار میں کِھلتے پھول، موسمِ خزاں میں درختوں سے لٹکتے پھل اور سارا ماحول سُرخ اور پیلے درختوں سے ڈھکا ہوا۔ لگتا تھا جیسے جنگل میں آگ لگ گئی ہو۔ سردیوں میں برف کی چادریں اوڑھے چوٹیاں اور ڈھلانیں۔ یوں Mutianyu سے خاصی آشنائی ہو گئی۔پھر ہوا یوں کہ ایک دن عمران نے اعلان کر دیا کہ بچّوں کی نانو کیبل کار میں جھولے لیں گی۔ میرے لاکھ انکار کے باوجود، مجھے وہاں لے ہی گئے۔ وہاں شناسائی کے جو نئے انداز سامنے آئے، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ یہ بیجنگ کے شمال مشرق میں کوئی 75, 70 کلومیٹر پر ہے۔ کیبل کار میں بیٹھنے اور جھولے لینے کا پتریاٹہ میں مزا چکھ چُکی تھی، مگر بات وہی پنڈ اور شہر کی ماڈرن کڑی والی تھی۔ کار اسٹیشن کی خُوب صورتیاں اور کاروباری حَسین طریقے سلیقے والے انداز۔ پیار سے، سہج سے، اطمینان سے بیٹھنے کے بعد آپ نیچے دیکھتے ہیں، تو نیلگوں دھویں کے غبار میں لِپٹی سر سبز ڈھلانوں والے تہہ در تہہ پہاڑی سلسلوں کا حُسن سانسیں روک لیتا ہے۔ میرے قدموں کے نیچے بُرجیاں تھیں۔ کشادہ درّوں میں بھاگتے دوڑتے لوگ تھے ۔Toboggan کا تجربہ بھی نہ کرنا، گویا خود کو بہت سے رنگوں سے محروم کرنے کے مترادف تھا۔سو، ہم نے وہ بھی کر ہی ڈالا۔

تازہ ترین