• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی زندگی عام طور پر مغالطوں کا شکار رہتی ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی بذات خود ایک مغالطہ ہے۔ انسان اس مغالطے میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ صدیوں تک جیئے گا چنانچہ وہ ہر وقت سو سال کے سامان کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ بقول شاعر
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
اگر انسان کا یہ مغالطہ رفع ہو جائے تو شاید وہ دولت، اقتدار اور اسی نوع کے نشوں کی ہوس سے آزاد ہو جائے اور قناعت کی راہ پر چل پڑے۔ اس صورت میں وہ نہ لوٹ کھسوٹ کی طرف مائل ہو گا اور نہ اندرون بیرون ملک دولت کے ڈھیر لگائے گا۔ دولت کے ڈھیر عام طور پر غلط طریقو ں کی کمائی سے لگائے جاتے ہیں وگرنہ اگر کمائی حلال ہو تو انسان اس کا معتدبہ حصہ انسانی فلاح پر صرف کر کے سکون قلب حاصل کرنے کا سامان کرتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری اور حرام کی آمدنی ہوس کی آگ مزید بھڑکاتی ہے اور دولت کی خواہش کو دو آتشہ کرتی ہے چنانچہ انسان سینکڑوں برس کی منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے اور عیش و عشرت کے لئے اندرون بیرون ملک محلات بنانے میں مصروف رہتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کو ان محلات میں اتنا وقت بھی گزارنے کا موقع نہیں ملتا جتنا ان کی تعمیر پر صرف ہوا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی آنکھوں سے پردے نہیں ہٹتے۔ آنکھوں سے پردے ہٹنے کا راز بھی خوب ہے۔ ماہرین نظر ڈاکٹر نہ جانے کیا کہیں لیکن صوفیاء کہتے ہیں کہ آنکھ پر پچاس پردے تنے ہوتے ہیں۔ جوں جوں انسان ذکر الٰہی کے ذریعے قلب کو منور کرتا ہے اور قرب الٰہی کی راہ پر سفر طے کرتا ہے آنکھوں سے ایک ایک کر کے پردے ہٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں سے پردے ہٹ جائیں تو وقت کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور قدرت اپنے بندے پر زمین و آسمان کے راز منکشف کرنے شروع کر دیتی ہے ان رازوں میں مستقبل بھی ایک راز ہے جسے اہل بصارت تو نہیں دیکھ سکتے لیکن قدرت اس راز کو اہل بصیرت پر ظاہر کر دیتی ہے۔ بصارت اور بصیرت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بصارت تو سبھی کے حصے میں آتی ہے حتیٰ کہ جانور، پرند ، چرند بھی ”بصارت رکھتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں لیکن بصیرت انسانوں کے لئے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔ اگر اس بصیرت کی ذکر الٰہی اور مجاہدات سے پرورش کی جائے تو یہی بصیرت روحانیت کے میدان میں داخل ہو جاتی ہے۔ بصیرت سے جو احوال و معاملات انسان تصور اور تخیل کے ذریعے دیکھتا ہے روحانیت سے وہی معاملات اور واردات اصل حالت میں دیکھنے لگتا ہے جس طرح ہم ہر مادی شے کو اپنی اصل حالت میں آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ نگاہ سے پردے ہٹنے کی کرامت ہوتی ہے۔ پردے ہٹنے سے وقت اور فاصلے اس طرح سمٹتے ہیں کہ انسان سینکڑوں میل دور کے واقعات یوں دیکھنے لگتا ہے جیسے ہم اپنے سامنے کے موجودات کو دیکھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے جب مدینہ منورہ میں خطبے کے دوران ہزاروں میل دور ایران کے مقام ثبسا میں مسلمانوں کی جہاد میں مصروف فوج کے کمانڈر کو حکم دیا تھا کہ یا ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو کیونکہ اس طرف سے دشمن حملہ آور ہو رہا تھا تو ساریہ بن زینم یعنی فوج کے کمانڈر نے حضرت عمر کا وہ حکم اسی لمحے ہزاروں میل کے فاصلے کے باوجود سن لیا تھا یہ سب نظر سے پردے ہٹنے اور باطن کے منور ہونے کا کمال تھا۔ دل نہیں چاہتا کہ اپنے درد میں آپ کو شریک کروں لیکن محض بات کی وضاحت کے لئے لکھنے پر مجبور ہوں۔ میں بار بار جو عرض کرتا ہوں کہ یہ اپنے اپنے تجربات کا قصہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا کوئی پس منظر ہے۔ جس شخص کو کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا وہ عمر بھر شاکی رہتا ہے اور دوسروں پر بھی شک کے کنکر پھینکتا رہتا ہے۔ عرصہ گزرا میں ایک روز کسی کام سے گھر سے دور گیا ہوا تھا۔ اچانک ایک مہربان صاحب نظر و باطن کا موبائل پر پیغام آیا کہ تمہارے گھر میں اس وقت جو دو بزرگ تشریف لائے ہیں جن میں ایک نے سفید قمیص شلوار اور کالے رنگ کا جوتا پہنا ہوا ہے یہ کون ہیں؟ میں نے فوراً جواب دیا کہ میں گھر سے پندرہ میل دور ہوں۔ گھر میں ملازم کے سوا کوئی نہیں۔ وہاں پہنچ کر ہی جواب دے سکوں گا۔ جن صاحب کا یہ پیغام تھا وہ لاہور سے تین سو میل دور ایک قصبے میں رہائش پذیر تھے۔ گھر پہنچا تو ملازم نے بتایا کہ میرے دو بزرگ رشتے دار ملنے آئے تھے۔ ان میں ایک صاحب سفید لباس میں ملبوس تھے۔ میں نے ان سے فون کر کے پوچھا کیا آپ نے سیاہ جوتے پہن رکھے تھے۔ انہوں نے تصدیق کی میں نے اپنے مہربان صاحب باطن کو موبائل پر پیغام کے ذریعے وضاحت کر دی۔ میں بذات خود ا یک گناہگار اور دنیا دار انسان ہوں جس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں لیکن مہربانوں کے ذریعے اس طرح کے تجربات سے گزرنے کے بعد مجھ پر یہ راز کھلا ہے کہ اہل نظر اور صاحبان باطن کے لئے مادی فاصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ مستقبل کے بطن سے رونما ہونے والے واقعات کو بھی اسی طرح دیکھ لیتے ہیں جس طرح ہم حال کو دیکھتے ہیں۔ اس طرح کے درجنوں مشاہدات کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ حضرت عمر نے مدینہ منورہ کے خطبہ کے دوران ہزاروں میل دور ایران کے مقام ثسا پر جہاد میں مصروف فوج کے کمانڈر کو کس طرح حکم دے دیا ظاہر ہے کہ یہ روشن باطن کا کمال تھا یہ منظر مدینہ منورہ میں موجود تمام نمازیوں نے دیکھا ان کو خود یہ مشاہدہ نہیں ہوا تھا ورنہ وہ حضرت عمر سے ہرگز نہ پوچھتے کہ آپ کیسے پیچھے دیکھنے کا حکم دے رہے تھے۔ حضرت عمر کی وضاحت کے باوجود یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ جب مجاہدین جہاد سے واپس لوٹے تو لوگوں نے ساریہ بن زینم یعنی سپہ سالار سے تحقیق کی اور اس نے تصدیق کی کہ ہاں میں نے حضرت عمر کی آواز میدان جنگ میں سنی تھی۔ میں اگر ان کے حکم کی تعمیل نہ کرتا تو عقبی پہاڑ سے حملہ آور ہونے والی دشمن فوج کے ہاتھوں بے پناہ نقصان اٹھاتا۔ اگر صرف حضرت عمر کے اسی واقعہ کو مثال بنایا جائے تو اس شخص پر جسے جو روحانی مشاہدات کے تجربات حاصل ہوئے ہیں۔
اس واقعے کی حقانیت اور رنگ میں منکشف ہو گی جبکہ مجھ جیسے اندھیروں میں بھٹکنے والے دنیا دار اسے محض ایک تاریخی کہانی کی مانند پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ غائب کا علم صرف اور صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ جتنا چاہتا ہے اپنے بندوں کو انعام کے طور پر دیتا ہے اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ علم درجہ بدرجہ ملتا ہے، جو جتنا قریب ہوتا ہے وہ اپنے رب سے اسی قدر انعام پاتا ہے۔ سمجھنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ ہر انسان یا ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ضرور ہے لیکن ہر کوئی اللہ کا بندہ نہیں ہوتا۔ بندہ بننے کے لئے بندگی اولین شرط ہے اور بندگی کی پہلی سیڑھی اطاعت خداوندی ہے۔ اطاعت تو بڑی دور کی بات ہے مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ہمارا خدا کے وجود پر یقین بھی ڈانوا ڈول ہے کیونکہ اگر ہمیں خدا پر مکمل بھرپور اور پورا یقین ہو تو پھر ہم لوٹ مار، قتل و غارت، جھوٹ، دھوکہ دہی، ملاوٹ، خزانہ چوری، شراب و شباب، اغوا برائے تاوان، رشوت و کمیشن خوری وغیرہ وغیرہ جیسی وارداتیں کیوں کریں؟ خدا پر یقین کامل کا منطقی تقاضا یوم حساب، سزا و جزا اور احکامات الٰہی کی تعمیل ہے۔ خدا پر حاصل یقین کا تقاضا آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا ہے۔ اگر ہمارے اعمال ان اصولوں کی نفی کرتے ہیں تو پھر ہمارا یقین بھی ڈانوا ڈول ہے۔ ہو سکتا ہے ہمیں اس کا احساس ہی نہ ہو اس لئے اس کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود احتسابی راہ راست پر لاتی ہے اور غفلت راہ راست سے ہٹا دیتی ہے۔ باقی پھر انشاء اللہ
وضاحت: میرا ایک کالم رقاصہ سے مجاہدہ تک پانچ فروری کو چھپا تھا جس کا مرکزی کردار عزیزن تھی۔ میں نے لکھا تھا کہ یہ مواد محمد صدیق اکبر کی زیر طبع کتاب سے ماخوذ ہے جس کا مسودہ مصنف نے مجھے دیا تھا دراصل یہ تحقیق معروف صحافی اور محقق خالد بہزاد ہاشمی کی ہے اور ان کے اس حوالے سے مضامین پاکستان ہندوستان میں چھپ چکے ہیں۔ ہاشمی صاحب اپنی محنت اور تحقیق کے لئے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ (قارئین نوٹ فرما لیں)
تازہ ترین