• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں کافی عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ اس شہر کا میئر کتنا با اختیار ہے،وہ کراچی کے کتنے فی صد حصے پر اپنے اختیارات استعمال کرسکتا ہے، کیا کراچی کا رائج الوقت بلدیاتی نظام اس شہر کے روز بہ روز بڑھتے اور شدت اختیار کرتے ہوئے مسائل حل کرسکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔جب مصطفی کمال کراچی کی شہری حکومت کے ناظم تھے تو وہ بار بار یہ کہا کرتے تھے کہ کراچی کو ایک چین آف کمانڈ کی ضرورت ہے ۔شہری منصوبہ بندی کے کئی ماہرین اور دیگر متعلقہ افراد بھی ان کی اس بات کی حمایت کرتے تھے۔موجودہ میئر ،وسیم اختر اپنے انتخاب کے وقت سے مسلسل یہ شکوہ کررہے ہیں کہ وہ شہر سے متعلق بہت سے امور کے بارے میں فیصلے کرنے اور ان پر عمل درآمد کرانے کا اختیار نہیں رکھتے۔ان حالات میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ دیگر ممالک ،خصوصا امریکا،برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ میں منتخب میئر کتنا بااختیار ہوتا ہے اوررہاں بڑے شہروں کا نظام کس طرح چلایا جاتا ہے۔

بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیادی اکائی

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا بنیادی تصور یونانی فلسفیوں نے دیا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یونانی تہذیب نے دنیا کو جو سب سے بڑا تحفہ دیا وہ جمہوریت ہے۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیادی اکائی تصور کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے شہر مثلا لندن، نیویارک، واشنگٹن، ٹوکیو، سنگاپور، اور پیرس میں بلدیاتی نظام قائم ہے۔جہاں میئر اور کونسلرشہر کا نظم ونسق چلانے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ بعض شہروں میں تو پولیس بھی میئر کے ماتحت ہوتی ہے۔بلدیاتی نظام میں گلی محلے کے معاشرتی مسائل کو وہاں کی مقامی قیادت مقامی سطح پر حل کرتی ہے۔بلدیاتی نظام کے تحت شہری حکومت درج ذیل مسائل کو دیکھتی ہے:

شہر کی گلیوں کو پکا کرنا اور سڑکوں کی تعمیر ۔پینے کے پانی کی فراہمی۔گند آب کی نکاسی کا انتظام کرنا۔گلیوں اور محلوں کی صفائی، کچرا اٹھوانا، اور اسے ٹھکانے لگانے کا بندوبست کرنا۔ تعلیم،صحت،عوام کی فلاح کےاداروں، دارالمطالعوںاور کھیل کے میدانوں کاقیام اورانتظام کرنا۔شہر کو سر سبز ، شاداب اور خوب صورت رکھنا ۔ پارکوں اور تفریح گاہوں کا انتظام کرنا،وغیرہ۔

پاکستان کے آمر حکم راں، منتخب حکومتیں اور بلدیاتی ادارے

بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اوربلدیاتی نظام کودنیا کے تمام مستحکم جمہوری ممالک میں جمہوریت کی پہلی سیڑھی تصور کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں بلدیاتی انتخابات کے بغیر جمہوری نظام کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن پاکستان میںاس کے برعکس ہوتا ہے۔یہاں دس، دس برس گزجاتے ہیں، لیکن بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں بر سراقتدار آتی ہیں انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی توفیق نہیں ہوتی ۔اگر عدالت عظمی پچھلے بلدیاتی انتخابات کرانے پرسابق حکم رانوں کو مجبور نہ کرتی تو پانچ برس بلدیاتی ادروں کے بغیر ہی گزر جاتے ۔اس کے برعکس جب بھی آمر اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں تو جلداز جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔

جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔لیکن جمہوریت کی چیمپیئن سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر یہ بات بھول جاتی ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جمہوری حکومتیں دو سو سال پرانا کمشنری نظام عوام پر تھوپے رکھنا چاہتی ہیں اور کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ذاتی مفادات کے لیے اختیارات دے دیتی ہیں۔ حالاں کہ ترقیاتی کام بلدیاتی نظام ہی سے ممکن ہیں۔ ہم کب یہ سمجھیں گے کہ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا کام گلی کی نالی بنوانا نہیں بلکہ ایسی قانون سازی کرنا ہے جس سے ترقیاتی کاموں میں آسانیاں پیدا ہو سکیں۔یہ کام بلدیاتی نمائندوں کا ہے،ایم این اے یا ایم پی اے کا نہیں۔ہماری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ بلدیاتی نظام عام آدمی کی دست رس میں ہوتا ہے اور عوام اپنے علاقے کے مسائل اس نظام کی مدد سے حل کرسکتے ہیں۔ عوام کے دیرینہ مسائل کا حل مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ہے۔جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے اس لیے ڈرتی ہیں کہ اس سے فنڈز اور اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل ہوجاتے ہیں جس سے ان کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ اس نظام کی بنا پر ان اراکین کے لیے بدعنوانی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وہ گلیوں اور محلوں کی سڑکوں کی تعمیر، سیوریج اور فراہمی آب کے منصوبوں، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں من مانیاں کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

جمہوری حکومت کے معنی ہوتے ہیں ایسی حکومت جو عوام کی طاقت سے چلائی جائے۔ لیکن پاکستان میں جمہوری حکومت کے معنی ہیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حکومت۔ جاگیر دارانہ مزاج رکھنے والی سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کی اس لیے مخالف ہوتی ہیں کہ اس سے غریب اور متوسط طبقے کی قیادت کو اختیارات مل جاتے ہیں اور وہ عوام سے قریب ہوجاتے ہیں جس سے ان جاگیرداروں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے غریب اور متوسط طبقے کی قیادت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کویہ سمجھنا چاہیےکہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کی سب سے بڑی اکائی اور اس کے محافظ ہیں، کیوں کہ یہ عوام کے درمیان ہوتے ہیں اور عوام کا بہ راہ راست ان سے رابطہ رہتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات جمہوریت کے تسلسل کا نام ہے۔ بااختیار مقامی حکومتیں عوام کو ملک کے انتظام میں بہ راہ راست شرکت کا احساس دلاتی ہیں۔ منتخب میئر اور کونسلر عوام سے بہ راہ راست رابطے میں رہتے ہیں جو کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن کے لیے ممکن نہیں۔

نظام کے بارے میں مخمصہ

ہمیں آزاد ہوئے ستّر برس سے سے زاید عرصہ ہوچکا ہے، لیکن ہم اب تک حتمی طورپر یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ ملک میں کس طرح کا بلدیاتی نظام رائج ہو نا چاہیے۔ہر فوجی آمر اپنا بلدیاتی نظام لے کر آتا ہے۔ان کے بعد آنے والی سول حکومتیں اسے ختم کردیتی ہیںاور ان اداروں میں اپنے پسندیدہ سرکاری افسران تعینات کردیتی ہیں۔ حالاں کہ عوام کے مسائل یہ نام زد افسران نہیں بلکہ صرف اور صرف منتخب بلدیاتی نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں ۔

پرویز مشرف کے دور کا نظام

کہا جاتا ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام کی تاریخ کا سب سے اچھا نظام سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں نافذ کیا گیا تھا۔جس میں خواتین کے لیے 33 فی صد نشستیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، مزدوروں اور کسانوں کو بھی خاطر خواہ نمائندگی دی گئی تھی۔ اس نظام کی وجہ سے بڑے شہروں میں ترقیاتی عمل تیز ہوا تھا۔ مگر ان کے رخصت ہوتے ہی ان کا متعارف کرایا گیا نظام بھی لپیٹ دیا گیا تھا۔چناں چہ جس نئے نظام کے تحت ملک میں پچھلے بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اس کے ضمن میں ہر جانب سے یہ سوال کیا جارہا تھا کہ اب بلدیاتی اداروں کے سربراہ کتنے بااختیار ہوں گے؟لیکن یہ سوال کیوں کیا جارہا تھا اور آج بھی کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا دنیا میں کچھ کرنے کے لیے اختیارات کا ہونا ہی پہلی اور آخری شرط ہوتی ہے؟ کیا دنیا کے ہر بڑے اور ترقی یافتہ شہر کا میئر بہت طاقت ور ہوتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے اس حوالے سے چند ممالک کا جائزہ لیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے بڑے شہروں کے میئر کتنے با اختیار ہیں۔

امریکا سے مثال

دنیا بھر میں میئرز کے اختیارات اور ذمے داریاں مختلف ہوتی ہیں ۔اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی شہر میں کس طرح کی مقامی حکومت ہے۔عام طو ر سے ریاست ہائے متحدہ، امریکا میں میئر کی ذمے داریاں درج ذیل ہوتی ہیں:

سٹی کونسل کے ذریعے خدمات انجام دینا۔کونسل کے اجلاسوں میں اپنی رائے کا اظہار کرنا۔ مختلف کمیٹیز کی صدارت اور رکنیت کے لیے کونسل کے اراکین کو نام زد کرنا۔مشاورتی بورڈز اور کمیشنز کے لیے شہریوں کا تقرر کرنا۔ سالانہ میزانیہ تیار کرنا اور چیف ایڈ منسٹریٹیو آفیشلز یا سٹی مینیجر کی جانب سے تیار کردہ سالانہ میزانیہ وصول کرنا۔ سالانہ رپورٹ تیار کرکے اسے کونسل کے سامنے پیش کرنا۔

کم زور اور طاقت ور میئرز

ریاست ہائے متحدہ ،امریکا کے بعض شہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے میئرز اختیارات کے اعتبار سے طاقت ور ہوتے ہیں اور بعض شہروں کے میئرز اس اعتبار سے کم زور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم ان کے کم زور یا طاقت ور ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ موثر ہوتے ہیں یا غیر موثر بلکہ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ سیاسی طور پر کتنے طاقتور ہیں اور میونسپل چارٹر میں انہیں کس حد تک انتظامی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ عملا ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کے ذریعے کم زور اور طاقت ور میئر کا تعین کیا جاسکے۔ تاہم اس کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ متعلقہ شہر کے میئرز کے پاس ماضی میں کس قسم کے اختیارات تھے اور وہ شہر کس رفتار سے پھیل رہا ہے۔ وہاں اس شہرکے میئر کو طاقت ور سمجھا جاتا ہےجہاں میئر کونسل کا نظام رائج ہوتا ہے اور میئر کا انتخاب بہ راہ راست عوام کرتے ہیں۔کم اختیارات والے میئرزان شہروں کے تصور کیے جاتے ہیں جہاں کونسل مینیجر طرز کا نظام ہوتا ہے اور میئر کا انتخاب سٹی کونسل کے اراکین کرتے ہیں۔

طاقت ور یا زیادہ اختیارات والا میئر اسے تصور کیا جاتا ہے :

جو مقامی حکومت کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہوتا ہے اور تمام ترانتظامی اختیارات اس کے عہدے میں مرتکز ہوتے ہیں۔ جو انتظامی ڈھانچے کو بہ راہ راست احکامات جاری کرتا ہے، یعنی وہ اس کے بہ راہ راست کنٹرول میں ہوتا ہے۔ جو مختلف شعبوں اور محکموں کے سربراہان کا تقرر کرنے یا انہیں ہٹانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کی کونسل کے پاس قانون سازی کا اختیار ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس ویٹو پاور ہوتا ہے۔ یعنی وہ کونسل کے بنائے ہوئے کسی قانون یا اس کی منظور کردہ کسی قرار داد کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے رد کرسکتا ہے۔ جس کی کونسل کے پاس روزانہ کے امور پر نظر رکھنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

کم زور یا کم اختیارات والا میئر اسے تصور کیا جاتا ہے :

جس کے شہر کی کونسل قانون سازی اور انتظامی اختیارات کے لحاظ سے طاقت ورہوتی ہے ۔جس کے اختیارات کم ہونے یا ویٹو پاور نہ ہونے کی وجہ سے میئر حقیقی معنوں میں چیف ایگزیکٹیو نہیں ہوتا۔جس کی کونسل شہر کی انتظامیہ کی موثر نگرانی سے میئر کو روک سکتی ہو۔جس کے علاقے میں ایسے متعدد انتظامی بورڈز اور کمیشنز ہو ں جو آزادانہ طور پر شہری حکومت کے دائرے میں رہ کر کام کرسکتے ہوں۔

ریاست ہائے متحدہ، امریکامیں کل 19429 میونسپل کورنمنٹس یا مقامی حکومتیں ہیں۔ بہت سے چھوٹے قصبوں میں کونسل مینیجر سسٹم رائج ہے اور زیادہ تر کاونٹیز کا نظام اسی طرح چلایا جاتا ہے۔ جہاں یہ نظام نہیں ہے وہاں کم زور میئر کا نظام رائج ہے۔تاہم وہاں کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں طاقت ور میئر کا نظام موجود ہے۔جن قصبوں کی آبادی پانچ ہزار یا اس سے کم نفوس (مختلف ریاستوں میں یہ شرح مختلف ہے) پر مشتمل ہے وہاں مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیں ہےاور ان کا انتظام بہ راہ راست کاونٹی کی حکومت چلاتی ہے۔

جہاں مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہے وہاں میئرز اور سٹی کونسل کا انتخاب بہ راہ راست ہوتا ہے ۔ہر شہر کے چارٹر میں اس کے عہدے کی میعاد اور وہ کتنی مرتبہ منتخب ہوسکتا ہے، درج ہوتی ہے۔عام طور سے میئر کا انتخاب نومبرکے مہینے میں آنے والے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کے روز وفاقی انتخابات کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم تمام میونسپلٹیز میں ایسا نہیں ہوتا۔

آج اسّی فی صد سے زاید امریکی شہری بڑے شہروں، ان کے نواح یا قصبوں میں رہتے ہیں۔ ان کے پولیس سے لے کر صحت و صفائی، تعلیم سے لے کر آگ سے تحفظ تک اور رہایشی سہولتوں سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ تک کے معاملات عموما بہ راہ راست شہری حکومتیں دیکھتی ہیں ۔ وسیع تناظر میں ان حکومتوں کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ یعنی میئر کونسل کا نظام، کمیشن کا نظام اورسٹی کونسل مینیجر کا نظام۔ ان میں سے میئر کونسل کا نظام سب سے پرانا بتایا جاتا ہے۔میئر کا انتخاب ہوتاہے اور اس کی کونسل کے اراکین جنہیں ایلڈر مین (ALDERMEN) کہاجاتا ہے، بعض اوقات منتخب کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات ان کا انتخاب وارڈز یا اضلاع سے کیا جاتا ہے۔میئر ایگزیکٹیو شاخ کا سربراہ ہوتا ہے جو کونسل کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے ،شعبوں کے سربراہان کا کونسل کی منظوری سے تقرر کرتا ہےاور اور اکثر شہر کے بجٹری آفیسر کا بھی تقرر کرتاہے۔اسے شہر کی قانون ساز شاخ یعنی کونسل کے منظور کردہ آرڈی نینس کو ویٹو کرنے کا بھی اختیار ہوتاہے۔

طاقت ور میئر کونسل طرز کا نظام وہاں 1990کی دہائی سے زیادہ تر بڑے شہروں میں بہت مقبول ہے۔ بڑے شہروں میں میئر کو شہر کے بارے میں پالیسی بنانے کا اختیار ہوتا ہےاور شہر کی انتظامیہ کو روزانہ کے امور کی دیکھ بھال کی ذمے داری نبھانا ہوتی ہے۔ عام طور سے شہری حکومت کے قانون ساز سالانہ میزانیہ اور عمومی پالیسی بناتے ہیں، قوانین کی قرارداد کی صورت میں منظوری دیتے ہیں اور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔

انگلستان کا نظام

انگلستان اور ویلز میں میئر کا انتخاب انیسویں صدی سے ہونا شروع ہوا۔انگلستان میں یہ نظام 1882کے میونسپل کارپوریشن ایکٹ کی شق نمبر 15کے تحت شروع ہوا تھاجس کے ذریعے میئر کا انتخاب ممکن بنایا گیا۔تاہم بیسویں صدی میں زیادہ تر انگلستان اور ویلزکے بوروز BOROUGHSمیں میئرز کو زیادہ انتظامی امور تفویض نہیں کیے گئے تھے اور عام طور سے اسے ایک امتیازی شان کے طور پر دیا گیا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔تاہم 2000 میں متعارف کرائی گئیں اصلاحات کے نتیجے میں انگلستان کی چودہ لوکل اتھارٹیز نے اپنے لیے میئر کا بہ راہ راست انتخاب کیا جو مل کرسِوِک میئر کا کردار نبھاتی ہیں ۔ ان میں لیڈر آف دی کونسل ہوتا ہے اور ان کے اختیارات پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ٹاون کونسل کا میئر ٹاون میئر کہلاتا ہے۔ویلز میں بھی میئر کا اسی طرح انتخاب ہوتا ہے۔یعنی بورو،کاونٹی اور سٹی کونسل کی سطح پر۔بڑے شہروں کے میئر لارڈ میئر کہلاتے ہیں۔

طاقت ور گریٹر لندن اتھارٹی، کم اختیارات والا میئر

گریٹر لندن اتھارٹی کا میئر ہر چار برس بعد منتخب کیاجاتا ہے۔اسی طرح لندن اسمبلی کے اراکین کا بھی انتخاب کیا جاتا ہے۔اسے ایگزیکٹیو میئر کہا جاتا ہے۔ لندن اسمبلی 25اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔اس اتھارٹی کو ٹرانسپورٹ ،پولیسنگ،اقتصادی ترقی،فائر اور ایمرجنسی پلاننگ وغیرہ کے ضمن میں کافی اختیارات حاصل ہیں۔ اسے زیادہ تر فنڈ حکومت کی طرف سے ملتے ہیں۔میئر جو بھی پالیسی بناتا ہے اسے باقاعدگی سے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ دی گریٹر لندن اتھارٹی کو کسی حد تک لوکل کونسل ٹیکس وصول کرنے کا بھی اختیار ہے۔میئر آف لندن دراصل دی گریٹر لندن اتھارٹی کا حصہ ہوتا ہے۔ لندن اسمبلی اس کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے۔میئر کے اختیارات عمومی اور خصوصی اقسام کے ہیں۔اس کی اہم ترین ذمےداریاں یہ ہیں:

گریٹر لندن کی حدود میں اقتصادی ترقی اور دولت میں اضافےاور سماجی ترقی کو فروغ دینا۔ماحول کی بہتری کے لیے کوشش کرنا۔

2007میں کی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں اسے ہاوسنگ،پلاننگ، کچرے اور فضلے اور ماحولیات سے متعلق امور کے بھی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔

گریٹر لندن اتھارٹی کے چار فنکشنل بازو ہیں جو آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں، لیکن ان کی اسٹریٹجک سمت کا تعین میئر کرتا ہے۔ان میں سے ایک بازو لندن ڈیولپمنٹ ایجنسی تھی جسے ختم کردیا گیا ہے۔ دوسرا بازو میٹرو پولیٹن پولیس اتھارٹی تھی جسے اب میئر آفس فار پولیسنگ اینڈ کرائم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ چار نئے ادارے ٹرانسپورٹ، پولیسنگ، ترقیات، فائراور ایمرجنسی سروس کے لیے بنائے گئے ہیں۔تاہم لندن کے میئر کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کے ضمن میں بہت کم آزادی حاصل ہے کیوں کہگریٹر لندن اتھارٹی کو کئی معاملات میں بہ راہ راست سروس اور ڈلیوری کے اختیارات حاصل ہیں۔میئرگریٹر لندن اتھارٹی کی فنکشنل باڈیز کے لیے کسی سینیر ممبر کا تقرر نہیں کرسکتا۔ نہ ہی وہ میٹرو پولیٹن پولیس کمشنر کا تقرر کرسکتا ہے ۔ تاہم وہ ٹرانسپورٹ آف لندن اور میئر آفس فار پولیسنگ اینڈ کرائم کے اجلاس کی صدارت کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ اس کا دوسرا بڑا اختیار جی ایل اے کے لیے میزانیہ بنانا ہے جو بارہ ارب یوروسے زیادہ کا ہوتا ہے۔ وہ لندن کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی غرض سے مرکزی حکومت سےفنڈ لینے کے لیے رابطہ کار کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔وہ شہر کے لیے اسٹریٹجک پلان بنانے کا بھی ذمے دار ہوتا ہے اور اسے گریٹر لندن اتھارٹی کے فنکشنل بازووں کو ہدایات دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ منصوبہ بندی کرنے کے بعد اس کے نکات کے بارے میں اتھارٹی سے صلاح و مشورہ کرے ، اپنے منصوبوں کو مشتہر کرے، میئر اور لندن اسمبلی، اتھارٹی کو اپنی سالانہ رپورٹس پیش کرے۔میئر کے لیے لازم ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اسٹیٹ آف لندن مباحثے کا اہتمام کرے اور سال میں دو مرتبہ میئر اور اسمبلی عوام کے سوالات سننے کے لیے اجلاس منعقد کریں جس میں عوام سوالات پوچھ سکیں۔

 ٹورنٹوکا رسمی اختیارات کا حامل میئر

ٹورنٹو ،کینیڈا کا میئر بر بنائے عہدہ شہر کی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے۔وہ سرکاری تقریبات میں شہر کی نمائندگی کرتا اور شہر کے سی ای او کے طور پر کام کرتا ہے۔ سی ای او کی حیثیت سے اس پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ شہر کے امور میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانےاورشہریوں کی فلاح کے لیے کام کرے۔دی سٹی آف ٹورنٹو ایکٹ کے مطابق شہر کے منتخب میئر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شہر کی ترقی اور بہتری کے لیے کام کرے اور سٹی کونسل اس سے یہ اختیار چھین نہیں سکتی۔تاہم مذکورہ ایکٹ میئر کو محض چند اختیارات دیتا ہے جن میں سے زیادہ تر رسمی نوعیت کے ہیں۔دوسری جانب کونسل اسے جو اختیارات دیتی ہے وہ انہیں جب چاہے واپس لے سکتی ہے۔میونسپل گورنمنٹ آف ٹورنٹو کا میئر شہر کے بیش تر امورکے بارے میں اکیلے فیصلے کرنے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اس کام کے لیے وہ سٹی کونسل کا پابند ہے۔اس کے اختیارات کا منبع سٹی آف ٹورنٹو ایکٹ اور سٹی کونسل کے بائی لاز ہیں۔ تاہم ان میں اونٹاریو کی ریاستی اسمبلی جب چاہے ترمیم کرسکتی ہے۔ کینیڈا میں ایک عدالتی حکم کے مطابق میونسپلٹیز کو آئینی طور پر آزادانہ حیثیت حاصل نہیں ہے بلکہ وہ صوبائی پارلیمان کی رائے کے ماتحت ہیں۔مذکورہ ایکٹ کے تحت میئر سٹی کونسل کا سربراہ اور شہر کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہوتا ہے۔ وہ سٹی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے تاکہ شہر کے امور سہولت سے اور موثر انداز میں چلائے جاسکیں،وہ کونسل کو رہنمائی فراہم کرسکے،سرکاری تقریبات میں شہر کی نمائندگی کرسکے، کونسل کو مخصوص معلومات فرہم کرسکے اور تجاویز دے سکے۔وہ پولیس کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔اپنے شہر کے قانون سازوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی وہ کوئی ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرسکتا ہے۔ وہ شہر کا نظام چلانے کا ذمے دار نہیں ہوتا کیوں کہ یہ سٹی مینیجرز کا کام ہے۔تاہم ہنگامی حالات میں اسے بعض اقسام کے اہم فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔مثلا شدید برف باری کی صورت میں وہ فوج کو طلب کرسکتا ہے ، جیسا کہ 1999میں ہوا تھا۔اس کے مقابلے میں سٹی کونسل کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔

پیرس:پے چیدہ نظام،کم اختیارات والا میئر

پیرس ،فرانس میں شہر کا نظم نسق چلانے کے لیے سٹی گورنمنٹ قائم ہے۔وہاں میونسپلٹی کی تاریخ 1790سے شروع ہوتی ہے۔کونسل آف پیرس شہر کا نظم و نسق چلاتی ہے۔یہ بہ یک وقت پیرس سٹی کونسل اور جنرل کونسل فار دی ڈپارٹمنٹ ڈی پیرس کے اختیارات استعمال کرتی ہے۔ پیرس کا میئر سٹی کونسل آف پیرس کا صدر ہونے کے ساتھ مذکورہ ڈپارٹمنٹ کابھی صدر ہوتا ہے۔شہر میں163 کونسلرز ہیں۔ یہ فرانس کا واحد شہر ہے جس کا دہرا کردار ہے۔یعنی ایک جانب کمیون کا اور دوسری جانب ڈپارٹمنٹ کا کردار۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ پرانا طرزِ حکومت ہے جس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔بعض شعبوں پر پری فیکچرز کا کنٹرول ہے اور بعض پر وفاقی حکومت کا۔ آگ سے تحفظ، امدادای سرگرمیوں اور پولیس کا شعبہ بہ راہ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔شہر کی کوئی میونسپل فورس نہیں ہے۔تاہم اس کے اپنے ٹریفک وارڈنز ہیں۔

کونسلرز کا انتخاب چھہ برس کے لیے کیا جاتا ہے۔شہر کے بیس میونسپل سب ڈویژنز ہیں۔ ہر ڈویژن کا اپنا ٹاون ہال اور منتخب کونسل ہے جو اپنے سب ڈویژن کے لیے ایک میئر کا انتخاب کرتی ہے۔کونسل آف پیرس کےچنیدہ اراکین پیرس کے میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔پیرس کے کمیون اور ڈپارٹمنٹ کے دہرے کردار کے باوجوداس کی ایک کونسل یعنی کونسل آف پیرس ایسا ادارہ ہےجو دونوں کے معاملات دیکھتا ہے۔اس کونسل کی صدارت پیرس کا میئر کرتا ہے۔ پہلےشہر کے میئر کو زیادہ اختیارات حاصل نہیں تھے، لیکن 1977میں کی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں اس کے اختیارات میں اضافہ ہوا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فرانس کا بلدیاتی نظام کافی پےچیدہ ہے۔پیرس کانظام بھی بہت سی پے چیدگیوں کا حامل ہے جس کی وجہ سے وہاں نواحی علاقوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔اگر چہ 2005میں نواحی علاقوں میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے بعد نظام کو بہتر بنانے کی کچھ سعی کی گئی تھی، لیکن مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے۔

تازہ ترین