• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعلی پنجاب کی چھٹی یا ’’لائف لائن مل گئی‘‘؟

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل کیے جانے کی افواہیں گذشتہ کئی ہفتے سے مسلسل گردش میں رہی ہیں، وزیراعظم عمران خان کے ایک روزہ دورہ میں ان کے خاتمے کیلئے کوئی ٹھوس پیش رفت تو سامنے نہیں آ سکی لیکن عثمان بزار کو ایک لائف لائن ضرور مل گئی ہے لیول پورا کرنے کیلئے، پنجاب میں مختلف محکموں کی کارکردگی کا گراف توقعات سے بہت کم ہونے کے باوجود وزیر اعظم نے کوئی حتمی قدم اٹھانے سے گریز کیا تاہم وزیراعلی پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے، تاہم آنے والے چند روز میں یہ امر واضح ہو گا کہ عمران خان کو سردار عثمان بزدار کی اہلیت پر حسب سابق اعتماد ہے یا یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا سبب بنے گی ۔ وزیراعظم کے دورہ سے قبل صوبائی وزراء میاں اسلم اقبال، عبد العلیم خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے نام وزارت اعلیٰ کے لئے سامنے آ رہے تھے اور کہا جا رہا تھاکہ پہلے وزیراعظم کھل کروزیراعلیٰ پنجاب کی حمایت کرتے اور ان کا دفاع کرتے تھے۔اب وہ کچھ عرصہ سے دفاع سے خاموشی پر چلے گئے اور وزیر اعلیٰ کی شکایات پرخاموش رد عمل دینے لگے جبکہ بعض ذرائع کایہاں تک کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے وہ اپنی نجی محفلوں میں اعتراف کر رہے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے میں ان سے غلطی ہوئی اسی باعث یہ افواہ گرم تھی کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ تبدیل ہونے جا رہا ہے دوسری طرف حکومت کا معاشی گاڑی چلانے کا خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔ اس ضمن میں ساری کاوشیں تاحال بے سود رہی ہیں۔ معاشی گاڑی چلانے کے لئے ایک طرف صنعتی طبقے کو ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے تو دوسری جانب بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب کے ہاتھ کسے جا رہے ہیں اب نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ تاجروں کے معاملات کو ہاتھ نہیں ڈالے گا یہ تمام معاملات ایف بی آر دیکھے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کے حالیہ دورہ لاہور میں وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجابب پر واضح کر دیا کہ اب ان کو پولیس اور ہیلتھ میں جلد از جلد ریفارمز چاہئے۔ سیاسی مبصرین کا وزیراعظم کے حالیہ دورہ لاہور پر کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب پنجاب میں کام چاہ رہے ہیںوزیراعلیٰ کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم پنجاب میں پولیس ریفارمز اور صحت کے شعبے میں اب تک کئے گئے اقدامات سے ناخوش نظر آئے۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار سے مخاطلب ہو کر کارکردگی بہتر کرنے کا کہتے رہے۔ اجلاس کی اندرونی کہانی میں ذرائع کاکہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا رویہ جارحانہ تھا جیسے پہلے وہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کوریسکیو کرنے کے علاوہ ان کی تعاریفیں کرتے رہتے تھے اس بار ٹارگٹ دیتے رہے، وزیراعظم عمران خان نےپنجاب میں خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب عارف نواز کو جلد از جلد خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں کمی لانے کا ٹارگٹ دیاہے۔آئی جی پنجاب جب بریفنگ دے رہے تھے تو وزیراعظم پولیس کی کارکردگی سے ناخوش نظر آئے اور آئی جی پنجاب سے کہاکہ کامیاب ممالک میں پولیس ریفارمز جیسی پولیس ریفارمز لائو۔ بعض ذرائع کاکہناہے کہ وزیراعظم اس بار حکومت پنجاب کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ پولیس کے ساتھ ہیلتھ کے شعبے کو وزیراعظم عمران خان نے آڑے ہاتھوں لیا، ہسپتالوں کی صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کیا اور وزیر اعلیٰ سے کہا کہ ہسپتالوں میں غریبوں اور بے سہارا افراد کے ساتھ ٹھیک سلوک نہیں کیا جا رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ کو غریبوں کا مفت علاج فراہم کرنے کو یقینی بنانے کا ٹارگٹ دیا ہے۔ وزیراعظم نے جلد از جلد ہسپتالوں کی صورتحال بہتر کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعظم نے ہدایت دی کہ بڑے ہسپتالوں کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت چلانے کے اقدامات کیے جائیں،تاکہ غریبوں کا مفت علاج ہوسکے۔ اب خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سابق سینئر وزیر/ وزیر بلدیات عبد العلیم خان کو وزارت دینے کی منظوری بھی دی ہے اور کابینہ کو سختی سے کارکردگی بہتر کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بظاہر بہت محنت کر رہے ہیں عثمان بزدار کے ساتھ جڑی بیورو کریسی کی قابلیت پررتی بھر شک نہیں کیا جا سکتا تھا چونکہ یہ وہی بیوروکریٹس ہیں جو سابق سپیڈو وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے ٹرینڈ کئے ہوئے ہیں، پنجاب کے اہم اداروں محکموں کے سربراہاں رہچکے ہیں ۔جوسابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی حکومت میں اہم سیٹوں پر تعینات رہے اب بھی صوبے کےان اہم اداروں کی کنجی ان افسران کے ہاتھ میں ہے جن محکموں ،اداروں سے وزیراعظم عمران خان کوعوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے بہت سی توقعات ہیں۔ ان محکموں کے سیکرٹریز اورڈی جیز سابق دور حکومت کے لاڈلے افسران ہیں جنہوں نے بڑے بڑے ٹارگٹ پورے کئے تھے۔ اب صوبے کی خوش قسمتی سمجھیں ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعلیٰ بھی ان ہی افسران پر انحصار کر رہے ہیں اورجو بظاہر ۔لیکن بعض ماہرین کاکہناہے کہ ایک سوچنے کی بلکہ غور طلب بات ہے کہ اتنے ایکسپرٹ بیوروکریٹس کے ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی مثبت کیوں نہیں ہو رہی ہے سستے گھروں کے منصوے پر سپیڈی کام کیوں نہیں ہورہا ہے ،صحت کا شعبہ ٹھیک کیوں نہیں ہورہا ہے، ہسپتالوں کی صورتحال بہتر کیوں نہیں ہورہی،پرائمری اسکولز میں بہتری کیوں نہیں آ رہی، محکمہ بلدیات لوکل گورنمٹ کے نئے انتخابات کیلئے حلقہ بندیاں ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہو رہیں ،نئے بلدیاتی ایکٹ کے رولز اور بائی لاز ابھی تک کیوں نہیں بنے،روزگار کے نئے مواقع پیدا کیوں نہیں ہو پا رہے ؟۔ یہ سب سوالات ہیں جن کا جواب عوام وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بلکہ وزیر اعظم عمران خان سے چاہتے ہیں۔یہاں پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس با وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو لائف لائن دے تو دی ہے ،لیکن لیول بہت ہارڈ ہے بلکہ سپر ہارڈ ہے اور اس سپر ہارڈ لیول کو پورا کرنے کیلئے عثمان بزدار کو بوسٹرز کی ضرورت ہے ،اور مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے یہاں وزیر اعلیٰ کویہ واضح ہوجانا چاہیئے کہ اب بوسٹرز وزیر اعظم نہیں دیں گے، عثمان بزدار کو سپرہارڈ لیول پورا کرنے کیلئے خود ہی کچھ کرنا ہو گا حکمت عملی میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی توپھر شائد بوسٹر مل جائیں ۔لیکن کچھ مبصرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اتنی ہیوی ویٹ بیوروکریسی کے ساتھ متاثر کن نتائج کیوں نہیں کر اخذ کر اپا رہے،اس لیئے اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ڈی جی خان کے وفود سے اہم ملاقاتوں میں سے کچھ وقت نکال اس پرضرور غور کرنا چاہیئے کہ تجربہ کار بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے تمام تر دعووں کے باوجود ڈلیوری کیوں نہیں ہو پارہی ،جس ڈلیوری کی توقعات وزیر عظم عمران خان نے عثمان بزدار سے لگائیں تھیں۔اس کے برعکس اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پنجاب سمیت پورے پاکستان میں عوام کو فوری ریلف دینے اور مدینہ کی ریاست قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان لاقانونیت، کرپشن،بے روزگاری کا خاتمہ، امیر ،غریب ،طاقتوراور کمزور سب کیلئے ایک جیسا عدل کانظام چاہتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین