یہ کوئی ربع صدی پہلے کا قصہ ہے، کراچی شہر کی ایک کاروباری مگر دلچسپ شخصیت فتح شیر خان نے ہمیں گپ شپ اور کھانے کیلئے بلایا، صحافی اور دانشور نذیر لغاری اور انورسن رائے بھی شریک محفل تھے، وہاں پر چند سال قبل ملتان میں ہونے والی عظیم الشان ”سنی کانفرنس“ کا ذکر چل نکلا جو کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ جیسی تاریخی جلسہ گاہ میں منعقد ہوئی تھی، اس کانفرنس کے منتظمین اور بعض مقامی اخبارات کی شہ سرخیوں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کے شرکاء کی تعداد چالیس لاکھ تھی، ہماری محفل میں ایک ایسے نوجوان دوست موجود تھے جن کا تعلق مذکورہ کانفرنس کا اہتمام کرنے والی تنظیموں میں سے، ایک سے تھا۔ انہوں نے نہ صرف اس بات پر اصرار کیا کہ کانفرنس کے شرکاء کی تعداد چالیس لاکھ تھی بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ کانفرنس میں شریک ہونے والے ہر شخص کے نام دینے کا اندراج بھی کیا گیا تھا۔
بزلہ سنج فتح شیر خان نے ان سے شرکاء کی تعداد کچھ کم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے یہ استفسار بھی کیا کہ جن رجسٹروں میں چالیس لاکھ لوگوں کا اندراج ہوا، انہوں نے کتنی جگہ گھیری ہوئی تھی اور اگر یہ ریکارڈ محفوظ ہے تو اس کیلئے کتنی جگہ مختص کی گئی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آپ سعودی عرب میں رہے ہیں اس دوران متعدد بار حج کی سعادت بھی حاصل کی ہے، میدان عرفات میں حج کے دن تمام حجاج کرام ”وقوف“ کیلئے بیک وقت جمع ہوتے ہیں، کیا کبھی ان کی تعداد چالیس لاکھ تک پہنچی ہے؟ کیا میدان عرفات کا رقبہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کے برابر ہے اور کیا میدان عرفات میں موجود حجاج کرام ملتان کی اس جگہ پر سما سکتے ہیں؟ ان کے سوالات پر مجھے بتانا پڑا کہ حج کے دنوں میں پوری دنیا سے آنے والے اللہ کے مہمانوں کی تعداد کے بارے میں عربی، انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور اردو سمیت کئی زبانوں میں پمفلٹ شائع کرکے تقسیم کئے جاتے ہیں جن پر ہر ملک سے آنے والے حاجیوں کی تعداد درج ہوتی ہے۔ میرے مشاہدے میں سات سے زیادہ حج کے شرکاء آئے ہیں اور ان کی تعداد اٹھارہ سے پچیس لاکھ رہی ہے۔
قلعہ کہنہ کا رقبہ تو میدان عرفات میں موجود مسجد نمرہ سے بھی کافی کم ہے۔ جہاں پر خطبہ حج دیا جاتا ہے اور حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد یہاں خطبہ سنتی اور نماز ادا کرتی ہے لیکن اس مسجد سے کئی گنا بڑا میدان عرفات پھر بھی اپنی موٹروے جیسی شاہراہوں سمیت حجاج کرام سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ میرے مشاہدے میں آنے والے ان اجتماعات کے دوران سعودی عرب کی حکومت اربوں ریال کی لاگت سے حجاج کرام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہاں حالات ہنگامی محسوس ہوتے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش کی قلت کا خدشہ رہتا ہے، حوائج ضروریہ سے فراغت کے انتظامات بھی ناکافی لگتے ہیں۔ بیس پچیس لاکھ حجاج کرام ایام حج میں مناسک حج کی ادائیگی کیلئے ٹرانسپورٹ بھی استعمال کرتے ہیں اور کئی لوگ ٹریفک جام سے بچنے کیلئے پیدل بھی سفر کرتے ہیں، منیٰ، مکہ مکرمہ، مزدلفہ اور میدان عرفات آنے جانے کے لئے متعدد سڑکیں ہیں پیدل آنے جانے والوں کیلئے منیٰ اور عرفات کے درمیان علیحدہ اور کشادہ سڑکیں ہیں اور وقوف عرفات کے دن صبح سے شام تک یہ سڑکیں منیٰ سے لے عرفات تک لوگوں سے بھری ہوتی ہیں۔
ان حجاج کرام کی خدمت پر مامور پولیس، ٹریفک پولیس، صفائی، صحت اور دیگر انتظامات کرنے والے لوگوں کو اگر قلعہ کہنہ یا مینار پاکستان کے اقبال پارک میں جمع کیا جائے تو یہ جگہیں کم پڑجائیں گی۔ بہرحال ہمارے وہ نوجوان دوست تو چالیس لاکھ کی تعداد کو پانچ لاکھ تک لے آنے کی جرأت کرسکے مگر ہم نے بڑی آسانی سے کانفرنس کے شرکاء کی تعداد تمام تر مبالغے کے ساتھ چالیس ہزار تک مان لی لیکن ہمارے مرحوم چنیوٹی شیخ دوست نے کمال کنجوسی سے کام لیتے ہوئے اسے پانچ سے سات ہزار ماننے پر تیار ہوئے تھے، ایسے محسوس ہوتا تھا کہ شاید آئندہ کانفرنس کے شرکاء کیلئے کھانے کے پیسے موصوف نے ادا کرنا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شہر کی آبادی چالیس لاکھ ہے تو ہمارے ہاں اس آبادی کیلئے پانی، خوراک، علاج معالجے اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ناکافی ہوتی ہیں اور اگر ہنگامی طور پر کسی دن اس آبادی میں چاہے ایک دن کیلئے ہی سہی، پچاس فی صد اضافہ ہو جائے تو کسی کو پانی ملے گا اور نہ ہی کھانے کو روٹی۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ تو کجا پیدل چلنے والوں کا گزرنا بھی محال ہو جائے گا۔
پہلے سے ابلتے گٹر مزید ابلیں گے اور سڑکیں گندے نالے بن جائیں گی۔ فتح شیر خان مرحوم نے تو بہت ساری باتیں کی تھیں، ہمارا خیال ہے تمہید کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔ اب ان حقائق کی روشنی میں صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے23دسمبر کے مینار پاکستان والے جلسہ عام یا ان کے حالیہ لانگ مارچ میں چالیس پچاس لاکھ لوگوں کی شرکت کے دعوؤں کو ہی نہ پرکھیں بلکہ ٹھنڈے دل اور عقل سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضی کے ”ملین مارچ“عمران خان کے ”تاریخی“ جلسوں اور بڑے بڑے رہنماؤں کے سامنے لاکھوں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کے بارے میں بھی اپنے طور پر درست اندازے لگائیں۔
تاہم یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے بعض اینکر پرسن یا تجزیہ نگار جب بھی ان لاکھوں شرکاء کی تعداد کے بارے میں درست اندازہ لگاتے ہیں تو انہیں لفافے لینے کا مرتکب اور بدعنوان صحافی قرار دے دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں صرف سیاستدان اور صحافی ہی بدعنوان اور کرپٹ ہوگئے ہیں، باقی سب دودھ میں نہائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اب یہ خوش فہمی ہونے لگی ہے کہ یہ سطور پڑھ کر لاکھوں کے سوال کا جواب ہم نے دے دیا ہے اور آئندہ کوئی اپنے جلسے، کانفرنس، جلوس یا لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں بڑھائے گا۔