کسی بھی ملک پر حکومت کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ خود کسی طریقے سے حکومت کرنے کا اختیار حاصل کیا جائے دوسرا کہ جو لوگ حکومت کرتے ہیں ان لوگوں پر اختیار حاصل کیا جائے اور گھر بیٹھ کر روحانی طور پر حکومت کرنے کا تجربہ کیا جائے۔ پہلا طریقہ بھی آسان نہیں لیکن دوسرا طریقہ اس سے بھی مشکل اور زیادہ محنت و مشقت طلب ہے۔ کیونکہ اس میں جہد مسلسل اور پیہم سعی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے جو خود حکومت کرتے ہیں انہیں حکمران کہا جاتا ہے اور جو حکمرانوں پر حکومت کرتے ہیں انہیں حکمران گَر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے اسلامی تاریخ کو لیجیے خلافت راشدہ کے تیس سالوں کے علاوہ باقی اب تک کی ایک ہزار چار سو سال کی تاریخ کا بیشتر حصہ بادشاہوں اور شہنشاہوں سے بھرا پڑا ہے کبھی وہ امیر المومنین کہلائے کبھی ملک کبھی سلطان کبھی خلیفہ کبھی شہنشاہ معظم، کبھی ظل الٰہی، کبھی جہاں پناہ، کبھی رئیس الملکت، کبھی جلالة الملک، کبھی نواب، کبھی مہا راجہ اور آج کل کی اصلاح میں جمہوری حکمران لیکن خوئے سلطانی اور انداز شہنشاہی جو کل تھے وہی آج بھی ہیں صرف وقت کے ساتھ ساتھ عنوانات بدلتے ہیں۔ ٹائٹل بدلتے ہیں۔ تعارف بدلتے ہیں مربع وہی ہوتے ہیں جس کی طرف فارسی کے ایک شاعر نے یوں کہا تھا۔ نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد۔ یعنی۔ بادشاہوں کا نازک مزاج کسی کی بات سننے کی تاب نہیں رکھتا آج کل کے جمہوری دور کے بادشاہوں نے بالخصوص نے بالخصوص مسلمان ملکوں میں برائے نام جمہوریت رائج کی ہے وہاں پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اپنے آپ کو وطن اور ملک کا اکلوتا محافظ سمجھتے ہیں اور اپنے علاوہ کسی اور کو محب وطن اور وطن کا خیر خواہ تصور نہیں کرتے وہ وطن کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور بالعموم وطن ہی کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو وطن کا متبادل سمجھنے لگتے ہیں ان جمہوری بادشاہوں کے خلاف بولنا گویا وطن کے خلاف بولنا سمجھا جاتا ہے وہ اپنے ذات کے خول سے نہیں نکلتے اور لوگوں کو وطن کے نام پر اپنی شخصیت کی پوجا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا تھا۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے
نظارے دیرینہ دنیا کو دکھا دے
سوال یہ ہے کہ ان شخصی بادشاہوں اور جمہوری آریتوں کے بتوں کو کیسے توڑا جائے انہیں کس طرح پاش پاش کیا جائے کیونکہ جماعتوں کی آستینوں میں یہ بت چھپے ہوتے ہیں بقول اقبال۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہٰ الا اللہ
14 سو سال اسلامی تاریخ میں وقت کے حکمرانوں شہنشاہوں، سلطانوں، خلیفوں والیوں اور نوابوں کے سامنے کسی نے کلمہ حق بلند کیا ہے اور اذاں کی صدا دی ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ فی الحقیقت وہی لوگ حکمران گر ثابت ہوئے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مشکل ترین کام کی ذمہ داری اٹھائی۔ انہوں نے حکومت کے اعلے ترین منصب پر بیھٹنے والے شخص یا پھر حکومت کے پہراداروں میں کام کرنے والے افراد پر قلبی فکری نظری اور روحانی توجہ کی یہ بہت محنت طلب اور طویل دورانیہ کا عمل ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج یعنی مثبت نتائج آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حسنی اور حسینی سیدزادوں نے اسلامی حکومت شوارئی نظام پر مبنی قائم کرنے کی متعدد بار کوشش کیں لیکن محمد نفس ذکیہ کو مدینہ منورہ میں شہید کردیا گیا ادریس اول کو المغرب میں زہردے کو منظر سے ہٹادیا گیا بعد میں ادریس ثانی نے حکومت قائم کی، عباسی حکمران نے اہم علی رضا کو حکمران بنانے کا وعدہ کیا تو عباسی خاندان کو سازش سے زہردے کر معاملہ نمٹا دیا گیا، سادات کرام نے امام زین العابدین سے لیکر امام جعفر صادق تک اور بعد میں آنے والے مشائخ وائمہ سادات نے دلوں کی بستیاں آباد کرنے اور لوگوں کی قلبی تطہیر کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرلی اور اصلاح امت کا فریضہ سر انجام دیا اس سے خاندانوں کے نام پر حکومت کرنے والے اگر ذرا کم ہی متاثر ہوئے کیونکہ وہ بادشاہی محلات عیش و عشرت کروں اور راحت و آرام کے خوگر اور دلدداہ ہوچکے ہوتے لیکن ہر اصلاحی مہم سے حکومت کے اہم عہدیداروں کی اصلاح و فکر نظرہوتی رہی جس کے اثرات کبھی کبھی بادشاہوں پر بھی نظر آتے تھے۔ یہ بادشاہ اور حکمران اموی ہوں عباسی ہوں، عثمانی ہوں، غوری ہو، تغلق ہوں، پٹھان ہوں، خلجی ہوں، مغل ہوں، یا صفوی ہوں اپنے اپنے دور ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں مذہبی اور روحانی رہنماؤں کے اکثر عقیدت مند رہے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہیں ان سے روحانی فیض حاصل کرتے رہے ہیں ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی مستحکم بنادیں رکھنے والا شہاب الدین محمد غوری خواجہ خواجگان حضرت معین الدین اجمیری کی ہدایت پر ہندوستان پر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے ترقی میں استنبول کا فاتح اپنے فیصلہ کن حملے کے وقت اپنے نقشبندی شیخ طریفت کو ہمراہ لیکر جاتا ہے اور جب شیخ اسے حملہ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو سلطان محمد فاتح تہجد پڑھ کر اپنے مرشد کے حکم کے تحت آگے بڑھتا ہے اور استنبول پر اسلامی پرچم لہراتا اور بشارت مصطفوی کا مصداق ٹھہرتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی شیخ ابوالحسن خرقانی کی دعاؤں کا طالب رہتا ہے۔ عباسی خلفاء حضرت غوث الاعظم سید نا عبدالقادر الجیلانی کی روحانی مجالس اور علمی محافل میں حاضری دینے کے آرزو مند اور طلب گار رہے ہیں مغل شہنشاہ جہانگیر حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کوجیل بھجواکر نادم اور پشیمان ہوتا ہے کیونکہ حضرت مجدد کے عقیدت مند اور مرید شاہی افواج کے جرنیلوں نے بادشاہ کی اصلاح کا فریضہ جاری رکھا حضرت مجدد الف ثانی جیل سے اپنے خطوط میں کمانڈر انچیف خان خاناں عبدالرحیم کو لکھتے رہے کہ بادشاہ کا مزاج اور اس کے افکار بدلو جرنیل کی خواہش تھی کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرکے اپنے مرشد کو جیل سے چھڑا لائے لیکن حضرت مجدد نے فرمایا کہ میں حکومت نہیں بلکہ حکمران کے مزاج کو بدلنا چاہتا ہوں اور یہی ہوا کہ نہ صرف جہانگیر ہوں بلکہ بہادر شاہ ظفر تک چند کو چھوڑ کر تقریباً تمام مغل بادشاہ روحانی سلسلوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے روحانی مرشد کسی نے کسی انداز سے ان کی تربیت کرتے ہوئے تھے حتیٰ کہ قائد اعظم محمدعلی جناح بھی پیر سید جماعت علی شاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زمین پر بیٹھ گئے جی ہاں قائد اعظم اصرار کے باوجود پیر صاحب کے سامنے زمین پر بیٹھے رہے اور کہا کہ میں اولیاء کا ادب احترام کرتا ہوں ہمارے آج کے مذہبی اور روحانی پیشوا خود حکمران بننے کی بجائے تربیت کرلیں تو حکمران گَر بن سکتے ہیں
نہ تخت و تاج میں نہ لشکر سپاہ میں ہے
جوبات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے