• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ابو غریب جیل میں بے گناہ عراقی قیدیوں پر انسانیت سوز عقوبت کی رُلا اور سر جھکا دینے والی تصاویر ایک ہی امریکی ابلاغی ادارے کی خاتون رپورٹر کے قابل تحسین پروفیشنلزم سے عام ہو گئیں تو عالمی رائے عامہ تو بعد میں بنی، اسی رپورٹ پر امریکہ میں جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑانے پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ امریکی رائے عامہ ہی تھی کہ بش انتظامیہ کی اس وضاحت کے باوجود کہ ابو غریب جیل میں برسوں سے جاری جو اذیت اور ہولناک تشدد بے گناہ عراقی شہریوں پر کیا جا رہا ہے، وہ کوئی حکومتی پالیسی نہیں، بلکہ ’’جیل عملے کا اپنا رویہ ہے‘‘ جو دوسری جیلوں میں بھی اختیار کیا گیا کہ ابو غریب تو مرکزی جیل تھی۔ امریکی رپورٹر کے جیل تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی رپورٹ بمعہ تصاویر شائع کرانے میں کامیابی کے بعد جب انٹرنیشنل میڈیا نے فالو اپ کے لئے جیل کے نام پر ابو غریب کی عقوبت گاہ کا رخ کیا تو انہیں وہاں جانے سے یہ کہہ کر روکا جانے لگا کہ ادھر کا رخ کرنے والے سب صحافی دہشت گرد ہیں۔ تاہم اس کا انٹرنیشنل میڈیا پر فالو اپ جارحانہ ہوا۔ قابض عراق میں ایسے جیل خانوں کے نظام کے سربراہ نے تحقیقات ہونے پر اس امر کا اعتراف کیا کہ ابو غریب جیل کے جو 94فیصد بے گناہ قیدی گرفتار کر کے بدنام زمانہ عقوبت گاہ میں پہنچائے گئے، وہ، وہ شہری تھے جو کسی دہشت گردی کی جائے وقوع یا گردونواح سے واردات کے مجرم ہونے کے شک شبہے میں حراست میں لئے گئے لیکن ان پر کوئی مقدمہ بنا نہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔

جنیوا کنونشن میں بنیادی انسانی حقوق کی وہ سنگین خلاف ورزیاں جو ریاستی انتظام کی چھتری میں ہوتی ہیں جس کے مرتکب ریاستی کارندے یا نام نہاد سیکورٹی اسٹاف ہوتا ہے، کو ایڈریس کرنے کی آپشن فقط فیکٹس فائینڈنگ مشن کی سفارش تک ہی محدود ہے۔ آج جبکہ مقبوضہ کشمیر کے 36روزہ ظالمانہ کرفیو جس میں 90لاکھ کشمیریوں کی زندگی مفلوج کر دی گئی اور انہیں دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے، کوئی ایسی صورت انسانی حقوق کے علمبرداروں اور عالمی متعلقہ اداروں کو نظر نہیں آ رہی، جس میں وہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کی بھارتی حکومت کو پہلے اس سفارش اور پھر مجرمانہ خاموشی سے مکمل نظر انداز پر کوئی کارروائی کر سکیں، بھارتی حکومت نے UNHRCکی سفارش اور اصرار کو جوتے کی نوک پر لکھا، الٹا بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت پر بھی بم چلا دیا گیا اور پورے مقبوضہ کشمیر کو بقول انٹرنیشنل میڈیا کے، دنیا کا سب سے بڑا جیل بنا دیا گیا۔

مقبوضہ کشمیر میں تو ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ اس کے دنیا کا سب سے بڑا جیل بننے سے پہلے جاری تھا، جس طرح پیلٹ گن کا اندھا دھند استعمال کر کے ہزاروں نوجوان نابینا کر دیئے گئے اور نوجوانوں کو ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر کے بھارتی ابو غریب جیلوں میں پہنچایا گیا، وہ نئی دہلی بلیڈ عالمی میڈیا کے ہجوم کے لئے بھی حکومتی پابندیوں سے اَن رپورٹیڈ بنا دیا گیا، خود دلی میں بیٹھے رپورٹر بھی خود کو بے بس ثابت کر رہے ہیں، تاہم اپنے اپنے ابلاغی اداروں کی کریڈبیلٹی بچانے کے لئے ’’آف دی اسپاٹ رپورٹنگ‘‘ اکا دکا رپورٹس بھیج کر کوئی جاری کرفیو کا نصف دورانیہ گزرنے کے بعد شروع ہوئی۔ ابھی تک مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال کی کوئی ’’آن دی اسپاٹ رپورٹنگ‘‘ نہیں ہو پا رہی۔ یہ بھارتی حکومتی دہشت ہے یا عالمی صحافت کی اجتماعی بے حسی کہ اِن میں کوئی بھی ایسا نہیں جو پانچ ہفتے سے کرفیو زدہ 9ملین آبادی کی ڈیپ رپورٹنگ کر پائے اور اگر تمام راہیں، بیک ڈور اور سوراخ بند کر دیئے ہیں تو بھارتی حکومتی رویے اور اپنی بے بسی کو ہی فالو اپ بنا لیں، اسے ہی رپورٹ کریں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیموں کی خاموشی اپنی جگہ تشویشناک اور معنی خیز ہے۔

سوشل میڈیا سے بے نقاب ہونے والی ان خبروں کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ اور اِس پر حکومت پاکستان کی مخصوص Persuationکیوں نہیں ہو رہی؟ کہ 300جواں سال گھروں میں دبکی کشمیری لڑکیوں کو بھارتی فوجیوں اور وردی والے آر ایس ایس کے مسلح غنڈوں نے آرمی بیرکس میں پہنچا دیا ہے، ان میں سے کچھ جنسی تشدد کے بعد ہلاک ہو چکی ہیں، کچھ کو باہر ہیومنس اسمگلنگ کے لئے بھیج دیا گیا ہے اور کچھ بدستور ان کی حراست میں ہیں۔ اس پر ہماری جانب سے بدمعاش مودی سرکار کو کوئی انتباہ ہونا چاہئے یا نہیں؟ سوشل میڈیا کی اس مخصوص خبر کے حوالے سے کوئی انتہائی نوعیت کا خط حکومت پاکستان کی جانب سے تمام حکومتوں کو بھیجنا بنتا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی ایسی خبریں ایسے آن لائن چینلز سے آ رہی ہیں، جن کی دی گئی کئی خبریں درست ثابت ہو چکی ہیں۔ حیرت اور تشویش بلند ترین درجے پر ہے کہ عراق کے ابو غریب جیل کی ڈیپ نیوز رپورٹ اس طرح 90لاکھ آبادی کے جیل اور عقوبت خانہ میں جانے کی کوئی بھی تو موقع کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آ رہی کہ قید خانے کے اصل اندرونی حالات ہیں کیا جبکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کی سینکڑوں نہیں ہزاروں انتہائی رپورٹ ایبل خبریں، خبر نہیں بن پا رہیں جو اجڑے اور غیر محفوظ گھروں میں انسانی المیوں کی شکل میں موجود ہیں، 90لاکھ ہو گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے اس تشویشناک حالت میں مکمل اَن رپورٹیڈ ہونے اور بھارتی حکومت کی اِس ریاستی دہشت گردی کے کتنے ہی پہلو انٹرنیشنل ٹریڈیشنل میڈیا کے لئے انتہائی رپورٹ ایبل، ان رپورٹ ایبل ہو گئے یا رپورٹ کئے نہیں جا رہے؟ سوال یہ بھی اہم ہے کہ ہماری اپنی سکت اسے بے نقاب کرنے کی متمنی ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین