• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوٹن باروکونسل کی صد سالہ تقریبات اور ہماری کمیونٹی

خیال تازہ … شہزادعلی
بارو کونسل لوٹن میں ایک صدی قبل پیش آنے والے اہم واقعات کی یاد منائی گئی۔ کونسل نے لوٹن کے بعض تاریخی واقعات سے آگاہی دلانے کے لئے متعدد پروگرام کئے۔ اس مناسبت سے جنگ نے لوٹن کمیونٹی کے معاملات کا ایک جائزہ لیا۔ لوٹن لندن کے مضافات میں واقع ایک کثیر الثقافتی اور کثیر النسل قصبہ ہے۔ اس وقت اس کی آبادی 218,350 نفوس پر مشتمل ہے۔ پاکستانی کشمیری لوٹن کی ایک بڑی کمیونٹی ہے۔ بعض محتاط اندازوں کے مطابق پاکستانی کشمیری باشندوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ آئرش، سکاٹش ایفرو کریبین اور بنگلہ دیشی کے علاوہ یورپین باشندے بھی اس قصبہ کا حصہ ہیں۔ لوٹن کا شمار اب برطانیہ کے ان تین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پر مقامی سفید فام انگریزوں کی آبادی پچاس فیصد سے کم رہ گئی ہے اس لئے یہ نسلی اعتبار سے خاصی اہمیت والا ٹائون ہے۔ لوٹن کی میزبان کمیونٹی قابل تعریف اور لائق تقلید ہے جس نے مختلف رنگ کے نسلی گروپوں اور مذاہب کو اپنے اندر خوبصورتی سے سمو رکھا ہے۔ مذہبی، لوٹن کے مسلمان مذہب سے خاصا لگاؤ رکھتے ہیں اس قصبہ میں متعدد مساجد اور مدارس قائم ہیں جو مسلمانوں کے اپنے مذہب سے انسیت کا ثبوت ہے، جنگ جائزہ واضح کرتا ہے کہ ان اداروں میں کمیونٹی کے متعدد نوعیت کے مذہبی اور سماجی معاملات پر پیش رفت جاری ہے۔ صوم و صلوٰۃ کے علاوہ مختلف دینی پروگرام لوٹن کا خاصا ہیں، جنازے اور تدفین کے حوالے بھی مذہبی اداروں کا خاصا کنٹری بیوشن ہوتا ہے، حالیہ عرصے میں مسئلہ کشمیر پر لوٹن کمیونٹی سے متعلق تمام مذہبی اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور لوٹن میں ایک پیس واک کا اہتمام کیا اور لندن دو مظاہروں کے انعقاد میں نمایاں کردار ادا کیا، لوٹن مساجد اور مدارس کی اس کاوش کو کمیونٹی میں ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اگر دینی ادارے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتے تو آزاکشمیر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں تھیں کہ وہ کشمیر پر بڑی سرگرمیاں ترتیب دے سکتیں اسی طرح بعض خرابیوں کے باوجود کئی چیرٹی کاموں میں مساجد مدارس کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم متعدد مذہبی ادارے جن بنیادی مقاصد کیلئے قائم کئے گئے تھے یعنی کہ یہ کمیونٹی بچوں کو درست رستوں پر چلائیں گے بچوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت ہوگی مجموعی طور پر یہ ادارے کمیونٹی کی نئی نسل کی تربیت کے حوالے اپنا رول نبھانے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔ بچوں اور نوجوان نسل کے عمومی رویے واضح طور پر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کمیونٹی کے اکثر مذہبی ادارے ناکامی کا کھلا ثبوت ہیں۔ پھر برطانیہ کے کئی دیگر شہروں اور قصبوں کی طرح لوٹن کی دینی اور مذہبی قیادت اور مساجد مدارس کی انتظامیہ مذہبی حوالوں سے لوٹن کی مسلمان برادری کی یکجہتی پیش کرنے میں بھی ناکام دکھائی دیتی ہے جس کا مظاہرہ ہم رمضان کے الگ الگ آغاز اور مختلف دنوں میں عیدوں کے پڑھنے کی صورت میں ملاحظہ کرتے ہیں جبکہ بعض معاملات میں یہ بھی محسوس کیا جاسکتاہے کہ مذہب کے نام پر استحصال بھی ہو رہا ہے۔ لوکل پالیٹیکس، لوٹن ٹائون ہال میں پاکستانی کشمیر کونسلرز کی تعداد کمیونٹی کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ مگر جنگ جائزہ واضح کرتا ہے کہ گنتی کے چند کونسلرز ایسے ضرور ہیں جو قدرے سنجیدہ اپروچ رکھتے ہیں اور جو مقامی کمیونٹیز کے ساتھ روابط رکھنے پر یقین رکھتے ہیں مگر زیادہ تر کمیونٹی کو مقامی سیاسی عمل میں شامل کرنے کے نام پر ان کا سیاست میں بھی استحصال جاری ہے۔ بعض موجودہ اور بعض سابقہ کونسلرز جو حالیہ الیکشن میں حکمران لیبر کے ٹکٹ کے سلیکشن مرحلہ میں ٹکٹ کے حصول میں ناکام رہے تھے ان کی نااہلیوں، کونسل افیئرز سے خاطر خواہ واقفیت کا نہ ہونا اور کمیونٹی معاملات سے لاپرواہی کا یہ نقد نتیجہ ہے کہ کمیونٹی کونسلرز کی بھاری تعداد کے باوجود لوٹن کی پاکستانی کشمیری کمیونٹی اسی کونسل جس میں کئی کمیونٹی کونسلرز، چند ایگزیکٹو کونسلرز بشمول میئر موجود ہیں مگر ملازمتوں میں پیچھے ہے۔ لوٹن کے پاکستانی کشمیری باشندوں کی اکثریت بدستور ایسے وارڈوں میں رہائش پذیر ہے جو لوٹن اور برطانیہ ہی نہیں یورپ کی سطح کی پسماندہ ترین وارڈیں شمار ہوتی ہیں۔ کمیونٹی نوجوان نائف کرائمز، ڈرگز ڈیلنگ، کار کریش اور دیگر کئی نوعیت کی غیر سماجی حرکات میں ملوث ہیں انتہاپسندی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کمیونٹی معاملات پر شدید غفلت برتنے کا لیبر پارٹی کے اندر اگرچہ سخت نوٹس لیا گیا کہ متعدد سیٹنگ کونسلرز سلیکشن مراحل سے باہر ہوکر ہاتھ ملتے رہ گئے مگر بعض نئے کونسلرز بھی ابھی تک کمیوںٹی کو کوئی قابل ذکر ریلیف دینے سے معذور دکھائی دیتے ہیں جس باعث اب ہر کونسلر کی کارکردگی کو ہر سطح پر پبلک جانچ پرکھ رہی ہے۔ قابل ذکر کمیونٹی کونسلرز کی عدم فعالیت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد عمومی طورپر اپنے کونسلرز کی کمیونٹی اپروچ سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ جائزہ میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ برطانیہ کی بعض دیگر کونسلوں کئی طرح لوٹن کونسل میں بھی عمومی طور پر پاکستانی کشمیری کونسلرز کی خصوصی توجہ پاکستان آزاد کشمیر کے سیاسی زعماء اور وہاں سے آنے والے سرکاری ملازمین کی پروجیکشن پر رہی اور ابھی بھی یہ روش جاری ہے جبکہ کمیونٹی کے لوٹن مسائل کے حل اور پیش رفت کیلئے ایسے کونسلرز کا فقدان ہے جو پاکستان آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کے معاملات میں ملوث ہونے کے بجائے یہاں کی مقامی سیاست پر کامل یکسوئی سے توجہ دیں۔ بدقسمتی سے لوٹن میں کنزرویٹیو اور لب ڈیم میں بھی زیادہ تر اپنی کمیونٹی سے وہی لوگ ملوث رہے ہیں ہیں جن کی ترجیحات لوکل لوٹن سیاست کے بجائے دونوں اطراف پر رہی ہے۔ آخر میں اب رہ گئیں پاکستانی کشمیری سیاسی جماعتیں، ان کا تو ذکر کرنا گویا اخبار کے قیمتی صفحات سیاہ کرنا ہے۔ ان کی اکثریت مسئلہ کشمیر کے نام پرفرقہ تصویریہ کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے ۔ ان کے ذمہ داران اپنے قریب قریب ہر پروگرام سے قبل کمیونٹی میڈیا نمائندگان کو ہدایات جاری کرتے ہیں کہ باہر سڑکوں پر ان کی اور ان کے کشمیر فاتحین، شیران کشمیر کی تصاویر کھینچی جائیں، ویڈیوز بنائی جائیں، نیوز چینلز کے پیکیج تیار کئے جائیں یا ٹی وی ٹکرز چلائے جائیں، پھر کمیونٹی ہالز اور ریستورانوں کے اندر ان کے ایک ایک لمحہ کی کوریج کی جائے۔ اختتام پروگرام ہال کے اندر اور رات گئے پھر باہر سڑکوں پر پھر گروپ فوٹوز بنائے جانے ضروری ہیں۔ یا ٹی وی چینلز کیلئے انٹرویوز لینے مسئلہ کشمیر کے حوالے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو روشناس کرنے کیلئے ان تنظیموں کے عہدیداروں کے ناموں کے ساتھ پروفیسر، بیرسٹر، ایڈووکیٹ وغیرہ لکھنا بھی ازحد ضروری ہے جبکہ اکثر مسئلہ کشمیر کے نام پر کمیوںٹی کے استحصال میں پہلے مرد حضرات نمایاں تھے اب بعض خواتین بھی اس فرقہ تصویریہ میں شامل ہورہی ہیں۔ جن میں بعض کشمیری شہداء کے نام پر پروگراموں میں سیلفیاں بنانا بھی لازمی خیال کرتی ہیں۔ پھر کشمیر کے نام پر ننانوے فیصد پروگرام کسی ایجنڈہ اور مقصدیت سے خالی دکھائی دیتے ہیں ۔ بس ایک دوسرے کی تعریف توصیف کا کلچر اپنایا گیا ہے کسی جگہ دس بندے بھی اگر جمع ہونگے ان میں ایک صدر تقریب، ایک مہمان خصؤصی، ایک شریک مہمان، ایک ناظم تقریب ضرور ہوگا اور ہر شریک تقریب مقررین میں بھی شامل، اس طرح کے کلچر سے مسئلہ کشمیر کو آخر کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اب چاہے لوٹن کمیونٹی کونسلرز ہوں، مذہبی اداروں یا سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران ماسوا چند ایک کے اکثریت اپنے اپنے اداروں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے غیر ذمہ دارانہ رویوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کشمیر کے مسئلہ کے چمپیئن بننے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں۔ ایسے میں کمیونٹی کے سنجیدہ مکتب فکر سے متعلق بعض شخصیات میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ لوٹن میں اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کمیونٹی کی کسی نمائندہ تنظیم یا فورم کی داغ بیل ڈالی جائے جو متوازن سوچوں کو آگے بڑھا سکے اور جس کے زیراہتمام کمیونٹی مسائل پر پیش رفت کیلئے غور و فکر کیا جائے اور مسئلہ کشمیر پر بھی ٹھوس بامقصد پروگراموں کو شروع کیا جائے۔
تازہ ترین