• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمومی طور پر ہم سیاستدانوں، حکمرانوں، سرکاری افسروں اور دوسرے ذمہ داروں کو خوب کوستے ہیں، اُن کے لیے چور، ڈاکو، جھوٹے، وعدہ خلاف، بددیانت کے القابات بلاجھجک استعمال کرتے ہیں اور اُنہی کو اپنے اور اپنے ملک کے خراب حالات کے ذمہ دار گردانتے ہیں لیکن اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہماری عادت نہیں اور دوسروں کی خرابیوں پر ہماری ہمہ وقت نظر رہتی ہے، اُن پر ہم جائز و ناجائز اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ اگر سچ سننے اور حقیقت دیکھنے کی ہم میں ہمت ہو تو پتا چلے گا کہ بحیثیت معاشرہ ہم انتہائی گراوٹ کا شکار ہیں۔ جھوٹ، دھوکا دہی، خیانت، وعدہ خلافی، بدزبانی، ملاوٹ کرنا، کم تولنا، رشوت ستانی گویا کوئی ایسی خرابی نہیں جو ہم میں موجود نہیں۔ پانی ملا دودھ تو اب کوئی مسئلہ ہی نہیں، یہاں تو کیمیکل سے تیار کردہ زہر دودھ کے نام پر بیچا جاتا ہے۔ کھانے پینے کی کوئی شے نہیں جو ملاوٹ سے پاک ہو، یہاں تک کہ بیمار کی زندگی بچانے کے لیے فروخت کی جانے والی ادویات جعلی، ٹیکے جعلی اور تو اور ڈاکٹر اور ٹیسٹ بھی جعلی۔ ہم پُل، بلڈنگ، پلازہ بناتے ہیں تو اپنی ذاتی لالچ، رشوت کے لیے ناقص میٹیریل استعمال کرتے ہیں، چاہے اس سے دوسروں کی زندگیوں کو ہی کیوں نہ خطرے میں ڈال دیا جائے۔ تعلیم کو بھی ہم نے تجارت بنا دیا۔ علم کو بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ نہ بیچنے والوں کو علم کے اصل مقاصد یعنی معاشرہ کی ترقی، اصلاح اور فلاح کا احساس ہے، نہ خریدنے والوں کو فکر کہ اُن کے بچے کیا اچھے انسان اور بہتر مسلمان بن رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارے نزدیک اچھا اسکول، کالج وہ ہے جو اچھے نمبر اور فوری نوکری کی ضمانت دے، والدین کو بھی یہی فکر ہے کہ اُن کا بچہ اسکول، کالج سے پڑھ کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائے یا اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو جائے۔ بچوں کی کردار سازی کی فکر اسکول، کالج کو ہے نہ والدین کو۔ یہی وجہ ہے کہ حلال حرام، اچھے بُرے کی تمیز تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور ہر ایک کا مقصد پیسے، عہدے کا حصول ہے جسے پانے کے لیے جھوٹ، فراڈ، دھوکا، بددیانتی گویا ہر جائز و ناجائز رستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

اسلام ہمارا دین ضرور ہے لیکن حقیقت میں ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھیں کہ کون سا گناہ ہے جو ہم نہیں کرتے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔ اول تو نماز پڑھتے ہی نہیں لیکن اگر پڑھتے بھی ہیں تو مسجد سے باہر نکل کر اُسی معاشرے کا فعال حصہ بن جاتے ہیں جو اپنی خرابیوں کی وجہ سے تیزی سے زوال پذیر ہے۔ مذہبی حلقوں کا بھی سارا زور اپنے اپنے مسلک کو اس انداز میں آگے بڑھانا ہے کہ مسلمان فرقوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں، یہاں تک کہ مسجدیں مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم کر دی گئی ہیں۔ اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرہ کی کردار سازی اور اصلاح ہمارے مذہبی حلقوں کی بھی ترجیح نہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں معیشت کی بہت فکر ہے لیکن ہم پولیس کے نظام، عدالتی اصلاحات، سول سروس کی بہتری وغیرہ کی بات بھی زبانی کلامی کرتے ہیں اور معاشرہ کی تربیت اور کردار سازی کے اُس بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دیتے جو ہر خرابی کی جڑ ہے، مثلاً کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کی بہت بات ہوتی ہے، حکومتی ادارے ایک دوسرے کو اس گندگی کاذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن حکومت، میڈیا، سیاستدان کوئی اس بنیادی نکتہ کی طرف توجہ نہیں دے رہا کہ اصل خرابی ہم پاکستانیوں میں ہے جن کو گند پھیلانے اور کوڑا کرکٹ جگہ جگہ پھینکنے کی عادت ہے۔ یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں پاکستان کے کسی علاقے میں چلے جائیں، لوگ گندگی پھیلاتے ہیں اور اسے بُرا بھی نہیں جانتے۔ اب تو ہمارے سیاحتی مقام بھی گندگی اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ مری کے جنگلات کیا، سیف الملوک جھیل تک کو ہمارے سیاحوں نے گندا کر دیا ہے۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ صفائی کرنا تو درکنار ہم اپنا اپنا گند نہیں سنبھالتے بلکہ اُسے کھلے عام پھینکتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھائے گا۔ جو حالت ہماری ہے اُس میں بائیس کروڑ عوام کے لیے بائیس کروڑ صفائی والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دیکھنا چاہیں تو ہمیں اپنی معاشرتی زندگی کے ہر پہلو میں ایسی ہی گندگی نظر آئے گی جس کی صفائی کا واحد حل معاشرے کی کردار سازی اور تربیت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)

تازہ ترین