اسلام آباد (نمائندہ جنگ،مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ ملک میں جاری احتساب کے عمل کے لئے سیاسی انجینئرنگ کا تاثر خطرناک ہے جسے فوری ختم ہونا چاہئے.
انہوں نے کہا کہ طرز حکمرانی میں سیاسی دائرہ سکڑنا ملک اور آئینی جمہوریت کیلئے بہتر نہیں، کرپشن قانون کی حکمرانی میں بڑی رکاوٹ، عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پٹیشنز کے فیصلے تک جسٹس فائز عیسی اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز پر کارروائی روک دی، کوئی یہ توقع نہ رکھےکہ ہم اس کا فیصلہ میرٹ سے ہٹ کر کریں گے سوموٹوکے اختیار پر فل کورٹ سے پہلے پیرامیٹرز طے کردینگے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ چند ماہ پہلے تک سوموٹو اختیار کے استعمال کی شکایت کررہے تھے اب استعمال نہ ہونے کی شکایت کررہے ہیں، پارلیمنٹ نے اداروں کے درمیان مکالمے کی میری تجویز پر غور نہیں کیا ،میڈیا پر قدغن تشویشناک اور معاشرتی تنائو جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختصر سیاسی مقاصد کے لئے شہریوں کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ لوٹی ہوئی دولت کی قانون کے مطابق واپسی ناگزیر ہے، جوڈیشل ایکٹیو ازم کی بجائے سپریم کورٹ عملی اورفعال جوڈیشل ازم کو فروغ دے رہی ہے ، جب ضروری ہوا عدالت از خود نوٹس لے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ایسا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں کرپشن کیلئے کوئی جگہ نہ ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ بدھ کونئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال میں سپریم کورٹ نے مقدمات کی تیزی سے سماعت سے متعلق اہم اقدامات کئے۔
سپریم کورٹ میں ای کورٹ نظام بھی متعارف کرایا گیا جس سے سائلین کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بارامان اللہ کنرانی نے کہا میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کسی کوکسی معزز جج کی کردار کشی کا استحقاق نہیں ہونا چاہئے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے کہا کہ آئین کی بالادستی کیلئے ہر ادارہ حدود میں رہ کر کام کرے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ مجھے علم ہے کہ معاشرے کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیو ازم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے۔ یہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیو ازم پر تنقید کرتا تھا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے، ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پر عزم ہیں اورمیں واضح کرناچاہتاہوں کہ عدالتی عمل میں جودلچسپی رکھتے ہیں وہ درخواست دائر کریں جس کو سن کر فیصلہ کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا یعنی جب بھی ہم ضروری سمجھیں گے سوموٹو نوٹس لے لیں گے ورنہ کسی کے مطالبے پر لیا گیا نوٹس سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا۔ از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کر لیا جائے گا۔ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔
چیف جسٹس نے انتظامیہ اور قانون ساز نظام کی تنظیم نو کے لئے نیا نظام لانے اور ادارہ جاتی مذاکرات کے لئے اپنی تجویز پر غور نہ کئے جانے کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تقاضا کیا تھا کہ انتظامیہ اور قانون ساز عدالتی نظام کی تنظیم نو کے لئے نیا تین تہی نظام متعارف کرائیں لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے عدالتی نظام کی تنظیم نو کی میری تجویز پر غور نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے۔ بداعتمادی سے پیدا ہونیوالی بے چینی جمہوری نظام کے لئے خطرہ ہے۔
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر زیرالتوا مقدمات کی تعداد 18لاکھ سے زائد تھی جواب کم ہوکر ساڑھے 17 لاکھ سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 نئے مقدمات کا اندراج جبکہ گزشتہ سال 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لئے عدالت عظمیٰ میں ای کورٹ سسٹم متعارف کرادیا ہے، انصاف کے شعبے میں دیگر اہم ترین اصلاحات بھی کی گئی ہیں لیکن یہ امر واضح ہے کہ ہم بطور ادارہ اس تاثر کوخطرناک سمجھتے ہیں کہ ملک میں جاری احتساب سیاسی انجینئرنگ ہے اس تاثر کے ازالے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہاکہ آئین صدر مملکت کویہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کریں ، یہی وجہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی۔