دولت علم، دولت دنیا اور کمال و اقبال شاذ و نادر ایک ساتھ ملتے ہیں
ایک عالم فاضل گردش زمانہ سے مجبور ہو کر تلاش معاش میں شہر بہ شہر در بہ در خاک بسر مارا مارا پھرتا تھا۔ اثنا ئے سفر ایک روز اسے ایک ایسے شہر پہنچنے کا اتفاق ہوا جس کے تمام دروازے بند تھے۔ اس نے وہاں موجود ایک معمر سے دروازوں کے بند ہونے کی وجہ پوچھی اسے بتلایا گیا کہ بادشاہ کا باز اڑ گیا ہے۔ لہذٰا اس نے تمام دروازوں کو بن رکھنے کا اس وقت تک حکم دیا ہے جب تک باز نہ مل جائے عالم نے حیرانی سے کہا باز پرندہ ہے وہ تو کب کا اڑ گیا ہوگا۔ عالم نے پھر معمر شخص سے کہا حکمت خداوندی میں کسے دخل ہے، ایسے بے وقوف کو بادشاہت مل گئی جس نے لاکھوں انسانوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہےاور یہاں ہمہ علم و ہنر تلاش رزق میں مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن میسر نہیں آتا۔ معمر شخص نے جواب دیا کیا تو اس بات پر رضامند ہوسکتا ہے کہ اس کا دماغ تیرے دماغ میں بھر جائے اور پھر بادشاہت تجھے دے دہ جائے۔عالم نے فورا جواب دیا یہ مجھے ہرگز منظور نہیں ایسیبے وقوفی اور حالت جہالت میں بادشاہت کا کیا فائدہ؟ علم کی روشنی چھوڑ کر جہالت کے گڑھے میں گرنا کون پسند کرے گا۔اس دانا نے کہا، شکر کرو کہ تم دولت علم سے مالا مال ہو جس کے مقابلے میں دنیاوی دولت بلکہ بادشاہت بھی ہیچ ہے خدا ہر شخص کو وہ دولت بخشتا ہے جس کی اسے تمنا ہو۔ تمہیں دولت علم کی خواہش تھی، تم نے تحصیل علم میں کوشش کی اور تمہیں بقدر تمہاری محنت و کوشش یہ دولت حاصل ہوگئی۔ دولت دنیا اور کمال و اقبال بہت کم ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔